Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The Saum (fasting) of Da'wud (David) alayhis salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1980.
حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: مجھے ابو ملیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے ہم سے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں میرے روزوں کا تذکرہ ہوا تو آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لیے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ بچھادیا۔ آپ زمین پر بیٹھ گئے۔ اس بنا پر تکیہ میرے اورآپ کےدرمیان رہا۔ آپ نےفرمایا: ’’ کیا تمھیں ہر مہینے میں تین روزے کافی نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ !آپ نے فرمایا: ’’پانچ روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’سات روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’نوروزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا : ’’ گیارہ روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابوداود ؑ کے روزوں میں سےکوئی روزہ افضل نہیں جو نصف سال کے روزے رکھتے تھے۔ تم ایک دن کا روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس سے پہلے ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا اسے مستقل عنوان کے تحت بیان کیا تاکہ اس کے افضل ہونے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ اور اب صوم داود کو الگ عنوان سے بیان کیا تاکہ سیدنا داود ؑ کی اس سلسلے میں اقتدا کی جائے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’میرے بھائی حضرت داود ؑ بھی اسی طرح روزے رکھتے تھے'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2747(1162)) (2) ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اسے افضل الصیام قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2742(1159)) سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے: ’’یہ روزے اعدل الصیام ہیں۔‘‘ نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت داود علیہ السلام اس قدر روزے رکھنے کے باوجود، جب کبھی دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا تو آپ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور کسی صورت میں راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔‘‘ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2395) سنن نسائی کی روایت میں ہے: ’’جب حضرت داود ؑ وعدہ کرتے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2395) (3) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی، اپنی امت پر شفقت اور مہربانی کی وضاحت ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں صحابۂ کرام ؓ کی اکثریت مالی وسعت نہ رکھتی تھی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چمڑے کا تکیہ بچھانے پر اکتفا کیا جبکہ صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ پر جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک اعمال اور دیگر اوراد و وظائف کی خبر دینا جائز ہے بشرطیکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔ (عمدةالقاري:201/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1923
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1980
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1980
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1980
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: مجھے ابو ملیح نے بتایا کہ میں تیرے باپ کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے ہم سے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں میرے روزوں کا تذکرہ ہوا تو آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لیے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ بچھادیا۔ آپ زمین پر بیٹھ گئے۔ اس بنا پر تکیہ میرے اورآپ کےدرمیان رہا۔ آپ نےفرمایا: ’’ کیا تمھیں ہر مہینے میں تین روزے کافی نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ !آپ نے فرمایا: ’’پانچ روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’سات روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا: ’’نوروزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا : ’’ گیارہ روزے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابوداود ؑ کے روزوں میں سےکوئی روزہ افضل نہیں جو نصف سال کے روزے رکھتے تھے۔ تم ایک دن کا روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس سے پہلے ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا اسے مستقل عنوان کے تحت بیان کیا تاکہ اس کے افضل ہونے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ اور اب صوم داود کو الگ عنوان سے بیان کیا تاکہ سیدنا داود ؑ کی اس سلسلے میں اقتدا کی جائے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’میرے بھائی حضرت داود ؑ بھی اسی طرح روزے رکھتے تھے'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2747(1162)) (2) ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اسے افضل الصیام قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2742(1159)) سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے: ’’یہ روزے اعدل الصیام ہیں۔‘‘ نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت داود علیہ السلام اس قدر روزے رکھنے کے باوجود، جب کبھی دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا تو آپ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور کسی صورت میں راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔‘‘ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2395) سنن نسائی کی روایت میں ہے: ’’جب حضرت داود ؑ وعدہ کرتے تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2395) (3) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی، اپنی امت پر شفقت اور مہربانی کی وضاحت ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں صحابۂ کرام ؓ کی اکثریت مالی وسعت نہ رکھتی تھی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے چمڑے کا تکیہ بچھانے پر اکتفا کیا جبکہ صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ پر جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک اعمال اور دیگر اوراد و وظائف کی خبر دینا جائز ہے بشرطیکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔ (عمدةالقاري:201/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے اور ان سے ابوقلابہ نے کہ مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا کہ میں آپ کے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمرو ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میرے روزے کے متعلق خبر ہوگئی۔ ( کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں ) آپ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور میں نے ایک گدہ آپ ﷺ کے لیے بچھا دیا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن آنحضرت ﷺ زمین پر بیٹھ گئے۔ اور تکیہ میرے اور آپ ﷺ کے درمیان ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کیا تمہارے لیے ہر مہینہ میں تین دن کے روزے کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ( کچھ اور بڑھا دیجئے ) آپ نے فرمایا، اچھا پانچ دن کے روزے ( رکھ لے ) میں نے عرض کی، یا رسول اللہ کچھ اور آپ ﷺ نے فرمایا چلو چھ دن، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ( کچھ اور بڑھائیے، مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ) آپ ﷺ نے فرمایا ! اچھا نو دن، میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! کچھ اور فرمایا، اچھا گیارہ دن۔ آخر آپ نے فرمایا کہ داؤد ؑ کے روزے کے طریقے کے سوا اورکوئی طریقہ ( شریعت میں ) جائز نہیں۔ یعنی زندگی کے آدھے دنوں میں ایک دن کا روزہ رکھ او رایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was informed about my fasts, and he came to me and I spread for him a leather cushion stuffed with palm fires, but he sat on the ground and the cushion remained between me and him, and then he said, "Isn't it sufficient for you to fast three days a month?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more)." He said, "Five?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more)." He said, "Seven?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more)." He said, "Nine (days per month)?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more)" He said, "Eleven (days per month)?" And then the Prophet (ﷺ) said, "There is no fast superior to that of the Prophet (ﷺ) David it was for half of the year. So, fast on alternate days."