Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Observing Saum on the first day of 'Eid-ul-Adha)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1995.
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ ’’ کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی ( نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ ‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں بیان کردہ چار باتیں انتہائی کارآمد اور بنیادی قسم کی ہیں: ٭ عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ عورت کی عزت و ناموس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ ٭ عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ ان میں روزہ رکھنا بالکل غیر مناسب اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نفل پڑھنا ناجائز ہیں، البتہ سببی نوافل یا فرض نماز کی قضا ان اوقات میں دی جا سکتی ہے۔ ٭ تین مساجد کے علاوہ دیگر مقامات کی طرف تقرب کی نیت سے رخت سفر باندھنا بھی شرعاً جائز نہیں، اسی طرح قبور صالحین کی طرف رخت سفر باندھنا اور وہاں تقرب الٰہی کے لیے عبادت کرنا بالکل بے بنیاد اور بلا دلیل ہے۔ (2) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کا روزہ درست نہیں۔ اگر کوئی اس دن روزے کی نذر مانتا ہے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1937
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1995
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1995
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1995
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ ’’ کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی ( نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بیان کردہ چار باتیں انتہائی کارآمد اور بنیادی قسم کی ہیں: ٭ عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ عورت کی عزت و ناموس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ ٭ عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ ان میں روزہ رکھنا بالکل غیر مناسب اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نفل پڑھنا ناجائز ہیں، البتہ سببی نوافل یا فرض نماز کی قضا ان اوقات میں دی جا سکتی ہے۔ ٭ تین مساجد کے علاوہ دیگر مقامات کی طرف تقرب کی نیت سے رخت سفر باندھنا بھی شرعاً جائز نہیں، اسی طرح قبور صالحین کی طرف رخت سفر باندھنا اور وہاں تقرب الٰہی کے لیے عبادت کرنا بالکل بے بنیاد اور بلا دلیل ہے۔ (2) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کا روزہ درست نہیں۔ اگر کوئی اس دن روزے کی نذر مانتا ہے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قزعہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے سنا، آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ جہادوں میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن ( یا اس سے زیادہ ) کے اندازے کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی اورمحرم نہ ہو۔ اور عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد رسوج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں اور چوتھی بات یہ کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد رحال ( سفر ) نہ کیا جائے، ”مسجد حرام، مسجد اقصی او رمیری یہ مسجد‘‘
حدیث حاشیہ:
بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔ خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔ شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔ حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں :فِيهِ بَيَانُ عَظِيمِ فَضِيلَةِ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ وَمَزِيَّتِهَا عَلَى غَيْرِهَا لِكَوْنِهَا مَسَاجِدَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ وَلِفَضْلِ الصَّلَاةِ فِيهَا وَلَوْ نَذَرَ الذَّهَابَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَلَوْ نَذَرَهُ إِلَى الْمَسْجِدَيْنِ الْآخَرَيْنِ فَقَوْلَانِ لِلشَّافِعِيِّ أَصَحُّهُمَا عِنْدَ أَصْحَابِهِ يُسْتَحَبُّ قَصْدُهُمَا وَلَا يَجِبُ وَالثَّانِي يَجِبُ وَبِهِ قَالَ كَثِيرُونَ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَأَمَّا بَاقِي الْمَسَاجِدِ سِوَى الثَّلَاثَةِ فَلَا يَجِبُ قَصْدُهَا بِالنَّذْرِ وَلَا يَنْعَقِدُ نَذْرٌ قَصْدُهَا هَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْمَالِكِيَّ فَقَالَ إِذَا نَذَرَ قَصْدَ مَسْجِدِ قُبَاءٍ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَقَالَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ يَلْزَمُهُ قَصْدُ ذَلِكَ الْمَسْجِدِ أَيُّ مَسْجِدٍ كَانَ وَعَلَى مَذْهَبِ الْجَمَاهِيرِ لَا يَنْعَقِدُ نَذْرُهُ وَلَا يَلْزَمُهُ شَيْءٌ وَقَالَ أَحْمَدُ يَلْزَمُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي شَدِّ الرِّحَالِ وَإِعْمَالِ الْمَطِيِّ إِلَى غَيْرِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ كَالذَّهَابِ إِلَى قُبُورِ الصَّالِحِينَ وَإِلَى الْمَوَاضِعِ الْفَاضِلَةِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْجُوَيْنِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا هُوَ حَرَامٌ وَهُوَ الَّذِي أَشَارَ الْقَاضِي عِيَاضٌ إِلَى اخْتِيَارِهِ۔امام نووی ؒ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔ اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔ آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیا ؑ سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔ اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی ؒ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماء اس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔ ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔ مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔ مگر امام احمد ؒ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔ اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ خواہ وہ قائل کسے باشد۔ مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔ شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔ قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): (who fought in twelve Ghazawat in the company of the Prophet). I heard four things from the Prophet (ﷺ) and they won my admiration. He said; 1. "No lady should travel on a journey of two days except with her husband or a Dhi-Mahram; 2. "No fasting is permissible on the two days of Id-ul-Fitr and 'Id-ul-Adha; 3. "No prayer (may be offered) after the morning compulsory prayer until the sun rises; and no prayer after the 'Asr prayer till the sun sets; 4. "One should travel only for visiting three Masajid (Mosques): Masjid-ul-Haram (Makkah), Masjid-ul-Aqsa (Jerusalem), and this (my) Mosque (at Medina)."