مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2.
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت حارث بن ہشام نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کبھی تو وحی آنے کی کیفیت گھنٹی کی ٹن ٹن کی طرح ہوتی ہے اور یہ کیفیت مجھ پربہت گراں گزرتی ہے، پھر جب فرشتے کا پیغام مجھے یاد ہو جاتا ہے تو یہ موقوف ہو جاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں میرے پاس آ کر مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے محفوظ کر لیتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نے سخت سردی کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب وحی آتی تو اس کے موقوف ہونے پر آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ نکلتا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بدل جاتی، آپ کا چہرہ انور متغیر ہوجاتا، پھر یہ معاملہ ایک دوبار پیش نہیں آیا بلکہ زندگی میں سینکڑوں مرتبہ آپ کو اس کیفیت سے دوچار ہونا پڑا، اس سے جہاں عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وعصمت بھی معلوم ہوتی ہے۔ 2۔ اس سوال میں کہ وحی کیسے آتی تھی؟ تین چیزیں آتی ہیں۔ (الف)۔ نفس وحی کی کیفیت۔ (ب)۔ حامل وحی حضرت جبرئیل کی کیفیت- (ج)۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت۔جواب میں ان تینوں چیزوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ 3۔ حدیث کے الفاظ :’’وہ مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے‘‘ سے معلوم ہوا کہ وحی الٰہی کلام نفسی کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ کلام نفسی کا حامل دماغی فتور کی وجہ سے’’غیبی باتیں‘‘ کرتا ہے اور اس کو تکلیف ومشقت اور پریشانی اورگھبراہٹ بالکل نہیں ہوتی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غیبی طاقت کے دباؤ اورکلام الٰہی کی گراں باری کی وجہ سے نزول وحی کے وقت پسینے سے شرابور ہوجاتے اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوجاتا۔ 4۔ اس حدیث میں وحی کی ان دوصورتوں کو بیان کیا گیا ہے جو عام طور پر آپ کو پیش آتی تھیں۔ ان کے علاوہ کبھی خواب کی صورت میں اور کبھی بذریعہ الہام و القاء بھی وحی آتی اور بسا اوقات حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے اصل روپ میں وحی لے کر تشریف لاتے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے پس پردہ بذات خود کلام فرمانے سے بھی وحی کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ حدیث معراج اس کی صریح دلیل ہے۔ 4۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ گھنٹی کی آواز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت نفرت تھی، ایسے حالات میں نزول وحی کو ایسی آواز سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے؟ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب بایں الفاظ دیتے ہیں کہ جرس(گھنٹی) میں دوچیزیں ہوتی ہیں: ایک موسیقی وترنم جو قابل نفرت ہے دوسری آواز کی شدت وقوت۔ وحی کو جرس کی دوسری صفت سے تشبیہ دی گئی ہے جو قابل نفرت نہیں۔ اسی شدت کی وجہ سے وحی کو’’قول ثقیل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعصابی نظام اس حد تک متاثر ہوتا کہ سخت سردی کے موسم میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔ 5۔ایک روایت میں ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔ آواز کی یہ کیفیت سامعین کے اعتبار سے تھی، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ آواز گھنٹی بجنے کی طرح ہوتی تھی تاکہ خارجی شوروغل سماع وحی میں دخل انداز نہ ہو۔ (فتح الباري: 19/1)۔ 6۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا یقین کے منافی نہیں جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے احیائے موتیٰ کے متعلق سوال کیا تھا، نیز حضرات انبیاء علیہم السلام سے ان پر گزرنے والے احوال و واقعات کے متعلق سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتح الباري: 22/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2
تمہید کتاب
وحی کے لغوی معنی پوشیدہ طور پر کسی کو بات بتانا ہیں اور اصطلاح شرع میں اس کلام وپیغام کو وحی کہاجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے حضرات انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز وحی کے بیان سے فرمایا کیونکہ انسانی رشدوہدایت کے لیے جو ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کاتمام ترانحصار وحی پر ہے،نیز اس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کی صداقت بھی وحی پر موقوف ہے۔لہذا جب تک وحی کی عظمت سامنے نہ آئے اس وقت تک اسلام کی حقانیت اور حضرات انبیاء علیہ السلام کی صداقت مشکوک رہے گی۔مزیدبرآں یہ بتانا مقصود ہے کہ دین حنیف لوگوں کے جذبات وقیاسات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی مرضیات پر مبنی شرعی احکام کا نام ہے اور اس عالم رنگ وبو میں منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے انسانوں کو جس قطعی اور یقینی چیز کی ضرورت ہے وہ وحی الٰہی ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور لائق ووثوق ہے جس کے اندر نہ توتغیر کا امکان ہے اور نہ سہو ونسیان ہی کاشائبہ ہے۔اس وحی کی عظمت وشوکت کا کیاحال ہوگا جس کا بھیجنے والامالک ارض وسما لانے والے قدسی صفات کے حامل حضرت جبرئیل علیہ السلام اور وصول کرنے والے جامع الکمالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر وحی کہاں سے،کس طرح،کس کے پاس،کون لایا؟کن حالات میں،کس مقام پر اس کا آغاز ہوا؟اس کتاب (بدء الوحي) میں انھی سوالات کا جواب دیاگیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص تالیفی اسلوب کے اعتبار سے اس مضمون کو دیگر مضامین میں سے پہلے بیان کرکے غالباً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوگا وہ عقائد ہوں یا عبادات ،معاملات ہوں یا اخلاقیات ،اصول ہوں یا فروع،ان سب کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت حارث بن ہشام نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کبھی تو وحی آنے کی کیفیت گھنٹی کی ٹن ٹن کی طرح ہوتی ہے اور یہ کیفیت مجھ پربہت گراں گزرتی ہے، پھر جب فرشتے کا پیغام مجھے یاد ہو جاتا ہے تو یہ موقوف ہو جاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں میرے پاس آ کر مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے محفوظ کر لیتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نے سخت سردی کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب وحی آتی تو اس کے موقوف ہونے پر آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ نکلتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بدل جاتی، آپ کا چہرہ انور متغیر ہوجاتا، پھر یہ معاملہ ایک دوبار پیش نہیں آیا بلکہ زندگی میں سینکڑوں مرتبہ آپ کو اس کیفیت سے دوچار ہونا پڑا، اس سے جہاں عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وعصمت بھی معلوم ہوتی ہے۔ 2۔ اس سوال میں کہ وحی کیسے آتی تھی؟ تین چیزیں آتی ہیں۔ (الف)۔ نفس وحی کی کیفیت۔ (ب)۔ حامل وحی حضرت جبرئیل کی کیفیت- (ج)۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت۔جواب میں ان تینوں چیزوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ 3۔ حدیث کے الفاظ :’’وہ مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے‘‘ سے معلوم ہوا کہ وحی الٰہی کلام نفسی کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ کلام نفسی کا حامل دماغی فتور کی وجہ سے’’غیبی باتیں‘‘ کرتا ہے اور اس کو تکلیف ومشقت اور پریشانی اورگھبراہٹ بالکل نہیں ہوتی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غیبی طاقت کے دباؤ اورکلام الٰہی کی گراں باری کی وجہ سے نزول وحی کے وقت پسینے سے شرابور ہوجاتے اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوجاتا۔ 4۔ اس حدیث میں وحی کی ان دوصورتوں کو بیان کیا گیا ہے جو عام طور پر آپ کو پیش آتی تھیں۔ ان کے علاوہ کبھی خواب کی صورت میں اور کبھی بذریعہ الہام و القاء بھی وحی آتی اور بسا اوقات حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے اصل روپ میں وحی لے کر تشریف لاتے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے پس پردہ بذات خود کلام فرمانے سے بھی وحی کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ حدیث معراج اس کی صریح دلیل ہے۔ 4۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ گھنٹی کی آواز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت نفرت تھی، ایسے حالات میں نزول وحی کو ایسی آواز سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے؟ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب بایں الفاظ دیتے ہیں کہ جرس(گھنٹی) میں دوچیزیں ہوتی ہیں: ایک موسیقی وترنم جو قابل نفرت ہے دوسری آواز کی شدت وقوت۔ وحی کو جرس کی دوسری صفت سے تشبیہ دی گئی ہے جو قابل نفرت نہیں۔ اسی شدت کی وجہ سے وحی کو’’قول ثقیل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعصابی نظام اس حد تک متاثر ہوتا کہ سخت سردی کے موسم میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔ 5۔ایک روایت میں ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔ آواز کی یہ کیفیت سامعین کے اعتبار سے تھی، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ آواز گھنٹی بجنے کی طرح ہوتی تھی تاکہ خارجی شوروغل سماع وحی میں دخل انداز نہ ہو۔ (فتح الباري: 19/1)۔ 6۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا یقین کے منافی نہیں جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے احیائے موتیٰ کے متعلق سوال کیا تھا، نیز حضرات انبیاء علیہم السلام سے ان پر گزرنے والے احوال و واقعات کے متعلق سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتح الباري: 22/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم کو عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، ان کو مالک نے ہشام بن عروہ کی روایت سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے نقل کی، انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے نقل کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا تھا کہ حضور آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس (فرشتے) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔
حدیث حاشیہ:
انبیاءؑ خصوصاً حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہﷺ پر نزول وحی کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ انبیاءکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور ان کے قلوب مجلّیٰ پر جو واردات یا الہامات ہوتے ہیں وہ بھی وحی ہیں۔ کبھی اللہ کا فرستادہ فرشتہ اصل صورت میں ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی بصورت بشر حاضر ہو کر ان کو خدا کا فرمان سناتا ہے۔ کبھی باری تعالیٰ وتقدس خودبراہ راست اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں وقتاً فوقتاً وحی کی یہ جملہ اقسام پائی گئیں۔ حدیث بالا میں جو گھنٹی کی آواز کی مشابہت کا ذکر آیا ہے حافظ ابن حجر نے اس سے وحی مرادلے کر آنے والے فرشتے کے پیروں کی آواز مراد بتلائی ہے، بعض حضرات نے اس آواز سے صوت باری کو مرادلیا ہے اور قرآنی آیت ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ ... الخ ( الشوریٰ: 51 ) کے تحت اسے وراءحجاب والی صورت سے تعبیر کیا ہے، آج کل ٹیلی فون کی ایجاد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فون کرنے والا پہلے گھنٹی پر انگلی رکھتا ہے اور وہ آواز جہاں فون کرتا ہے گھنٹی کی شکل میں آواز دیتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے ایک غیبی روحانی فون ہی ہے جو عالم بالا سے اس کے مقبول بندگان انبیاء ورسل کے قلوب مبارکہ پر نزول کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ پر وحی کا نزول اس کثرت سے ہوا کہ اسے باران رحمت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید وہ وحی ہے جسے وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جو تاقیام دنیا مسلمانوں کی تلاوت میں رہے گی اور وحی غیرمتلوآپ کی احادیث قدسیہ ہیں جن کو قرآن مجید میں ’’ الحکمۃ ‘‘ سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ہر دوقسم کی وحی کی حفاظت اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس چودہ سوسال کے عرصہ میں جس طرح قرآن کریم کی خدمت وحفاظت کے لیے حفاظ، قراء، علماء، فضلاء، مفسرین پیدا ہوتے رہے، اسی طرح احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے اللہ پاک نے گروہ محدثین امام بخاری و مسلم وغیرہم جیسوں کو پیدا کیا۔ جنھوں نے علم نبوی کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک امت ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ حدیث نبوی کہ اگردین ثریا پر ہوگا توآل فارس سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو وہاں سے بھی اسے حاصل کرلیں گے، بلاشک وشبہ اس سے بھی یہی محدثین کرام امام بخاری ومسلم وغیرہم مرادہیں۔ جنھوں نے احادیث نبوی کی طلب میں ہزارہا میل پیدل سفرکیا اور بڑی بڑی تکالیف برداشت کرکے ان کو مدون فرمایا۔
صدافسوس کہ آج اس چودہویں صدی میں کچھ لوگ کھلم کھلا احادیث نبوی کا انکار کرتے اور محدثین کرام پر پھبتیاں اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی پیدا ہوچلے ہیں جو بظاہر ان کے احترام کا دم بھرتے ہیں اور در پردہ ان کو غیرثقہ، محض روایت کنندہ، درایت سے عاری، ناقص الفہم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ مگراللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی خدماتِ جلیلہ کو جو دوام بخشا اور ان کو قبول عام عطا فرمایا وہ ایسی غلط کاوشوں سے زائل نہیں ہوسکتا۔الغرض وحی کی چارصورتیں ہیں : ( 1 ) اللہ پاک براہِ راست اپنے رسول نبی سے خطاب فرمائے۔ (2 ) کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آئے۔ (3 ) یہ کہ قلب پر القاءہو۔ ( 4 ) چوتھے یہ کہ سچے خواب دکھائی دیں۔
اصطلاحی طور پر وحی کا لفظ صرف پیغمبروں کے لیے بولا جاتا ہے اور الہام عام ہے جو دوسرے نیک بندوں کو بھی ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کے لیے بھی لفظ الہام کا استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ﴿وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ﴾( النحل: 68 ) میں مذکور ہے۔ وحی کی مزیدتفصیل کے لیے حضرت امام حدیث ذیل نقل فرماتے ہیں: ( حدیث مبارکہ نمبر 3 دیکھیں )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA): (the mother of the faithful believers) Al-Harith bin Hisham (RA) asked Allah's Apostle (ﷺ) "O Allah's Apostle (ﷺ) ! How is the Divine Inspiration revealed to you?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "Sometimes it is (revealed) like the ringing of a bell, this form of Inspiration is the hardest of all and then this state passes off after I have grasped what is inspired. Sometimes the Angel comes in the form of a man and talks to me and I grasp whatever he says." ' Aisha (RA) added: Verily I saw the Prophet (ﷺ) being inspired divinely on a very cold day and noticed the Sweat dropping from his forehead (as the Inspiration was over).