Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: Women's I'tikaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2033.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ میں آپ کے لیے خیمہ لگانے کا اہتمام کرتی تھی۔ آپ صبح کی نماز پڑھتے، پھر اس میں داخل ہو جاتے۔ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے خیمہ لگانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے اجازت دے دی اور حضرت حفصہ ؓ نے بھی وہاں اپنا خیمہ لگا لیا۔ جب اسے حضرت زینب ؓ نے دیکھا تو انھوں نے وہاں ایک اور خیمہ نصب کرلیا۔ جب صبح ہوئی نبی ﷺ نے وہاں کئی خیمے دیکھے تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ آپ کو جب صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم اس سے نیکی کا ارادہ کرتے ہو؟‘‘ آپ نے اس مہینے کا اعتکاف ترک کردیا، پھر شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؓ نے اس حدیث سے عورتوں کے لیے اعتکاف کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے اعتکاف کا اہتمام بھی مسجد میں ہونا چاہیے کیونکہ اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا تو آپ انہیں اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس رمضان اعتکاف کا پروگرام ہی ختم کر دیا حتی کہ شوال میں اس کی قضا دی اور دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ (2) عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ عورتوں کے لیے مردوں سے بایں طور الگ انتظام ہو کہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا قطعاً کوئی امکان باقی نہ رہے کیونکہ اختلاط مرد و زن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے پسند نہیں کیا۔ ٭ خاوند یا سرپرست سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت حاصل کی جائے بصورت دیگر اعتکاف صحیح نہیں ہو گا بلکہ بلا اجازت اعتکاف سے ثواب کے بجائے گناہ کا اندیشہ ہے۔ ٭ بحالت اعتکاف مخصوص ایام کے آ جانے کا بھی اندیشہ نہ ہو۔ ہر عورت کو اپنی عادت کا علم ہوتا ہے، اسے اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا۔ ٭ کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ اپنے گھر میں عبادت کرنے کا اہتمام کرے لیکن گھر میں عبادت کرنا شرعی اعتکاف نہیں۔ ٭ خورد و نوش اور دیگر لوازمات زندگی کا باقاعدہ انتظام ہوتا کہ باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ مرد حضرات تو بوقت ضرورت مسجد سے باہر جا سکتے ہیں لیکن عورتوں کے لیے ایسی اجازت فتنے کا باعث ہے۔ ٭ جو عورتیں اعتکاف کریں انہیں تفریح طبع کے سامان سے اجتناب کرنا ہو گا، اسی طرح اپنے ہمراہ موبائل رکھنا جس سے گھر والوں سے ہر وقت رابطہ رہے، اعتکاف کے منافی ہے۔ (3) بعض حضرات اس حدیث سے عورتوں کے لیے سنت اعتکاف غیر مشروع ہونے کا مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اعتکاف سے منع کر دیا تھا، حالانکہ منع کرنے کی درج ذیل وجوہات تھیں: ٭ آپ کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ سوکنوں کی باہمی غیرت کی وجہ سے ایسا کر رہی ہیں۔ اس طرح ریاکاری سے مقصد اعتکاف ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔ ٭ اعتکاف میں تنہائی مقصود ہوتی ہے، جب ازواج مطہرات نے وہاں خیمے گاڑ لیے تو گھر والی صورت حال ہو گئی، اس لیے آپ نے انہیں منع کر دیا۔ یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ان کی دیکھا دیکھی باقی ازواج مطہرات بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے نصب کر لیں گی جس سے جگہ تنگ ہو جائے گی اور نمازیوں کو تکلیف ہو گی، اس لیے انہیں منع فرما دیا۔ (فتح الباري:351/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1973
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2033
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2033
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2033
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ میں آپ کے لیے خیمہ لگانے کا اہتمام کرتی تھی۔ آپ صبح کی نماز پڑھتے، پھر اس میں داخل ہو جاتے۔ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے خیمہ لگانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے اجازت دے دی اور حضرت حفصہ ؓ نے بھی وہاں اپنا خیمہ لگا لیا۔ جب اسے حضرت زینب ؓ نے دیکھا تو انھوں نے وہاں ایک اور خیمہ نصب کرلیا۔ جب صبح ہوئی نبی ﷺ نے وہاں کئی خیمے دیکھے تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ آپ کو جب صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم اس سے نیکی کا ارادہ کرتے ہو؟‘‘ آپ نے اس مہینے کا اعتکاف ترک کردیا، پھر شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؓ نے اس حدیث سے عورتوں کے لیے اعتکاف کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے اعتکاف کا اہتمام بھی مسجد میں ہونا چاہیے کیونکہ اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا تو آپ انہیں اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دے دیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس رمضان اعتکاف کا پروگرام ہی ختم کر دیا حتی کہ شوال میں اس کی قضا دی اور دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ (2) عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں: ٭ عورتوں کے لیے مردوں سے بایں طور الگ انتظام ہو کہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا قطعاً کوئی امکان باقی نہ رہے کیونکہ اختلاط مرد و زن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے پسند نہیں کیا۔ ٭ خاوند یا سرپرست سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت حاصل کی جائے بصورت دیگر اعتکاف صحیح نہیں ہو گا بلکہ بلا اجازت اعتکاف سے ثواب کے بجائے گناہ کا اندیشہ ہے۔ ٭ بحالت اعتکاف مخصوص ایام کے آ جانے کا بھی اندیشہ نہ ہو۔ ہر عورت کو اپنی عادت کا علم ہوتا ہے، اسے اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہو گا۔ ٭ کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ اپنے گھر میں عبادت کرنے کا اہتمام کرے لیکن گھر میں عبادت کرنا شرعی اعتکاف نہیں۔ ٭ خورد و نوش اور دیگر لوازمات زندگی کا باقاعدہ انتظام ہوتا کہ باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ مرد حضرات تو بوقت ضرورت مسجد سے باہر جا سکتے ہیں لیکن عورتوں کے لیے ایسی اجازت فتنے کا باعث ہے۔ ٭ جو عورتیں اعتکاف کریں انہیں تفریح طبع کے سامان سے اجتناب کرنا ہو گا، اسی طرح اپنے ہمراہ موبائل رکھنا جس سے گھر والوں سے ہر وقت رابطہ رہے، اعتکاف کے منافی ہے۔ (3) بعض حضرات اس حدیث سے عورتوں کے لیے سنت اعتکاف غیر مشروع ہونے کا مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اعتکاف سے منع کر دیا تھا، حالانکہ منع کرنے کی درج ذیل وجوہات تھیں: ٭ آپ کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ سوکنوں کی باہمی غیرت کی وجہ سے ایسا کر رہی ہیں۔ اس طرح ریاکاری سے مقصد اعتکاف ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔ ٭ اعتکاف میں تنہائی مقصود ہوتی ہے، جب ازواج مطہرات نے وہاں خیمے گاڑ لیے تو گھر والی صورت حال ہو گئی، اس لیے آپ نے انہیں منع کر دیا۔ یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ان کی دیکھا دیکھی باقی ازواج مطہرات بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے نصب کر لیں گی جس سے جگہ تنگ ہو جائے گی اور نمازیوں کو تکلیف ہو گی، اس لیے انہیں منع فرما دیا۔ (فتح الباري:351/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل دوسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ میں آپ کے لیے ( مسجد میں ) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر حفصہ ؓ نے بھی عائشہ ؓ سے خیمہ کھڑا کرنے کی ( اپنے اعتکاف کے لیے ) اجازت چاہی۔ عائشہ ؓ نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ کھڑا کر لیا جب زینب بنت جحش ؓ نے دیکھا تو انہوں نے بھی ( اپنے لیے ) ایک خیمہ کھڑا کر لیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ نے اس مہینہ ( رمضان ) کا اعتکاف چھوڑ دیا اورشوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
قال الإسماعیلي فیه دلیل علی جواز الاعتکاف بغیر صوم لأن أول شوال یوم الفطر و صومه حرام۔ یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ بغیر روزہ کے بھی اعتکاف درست ہے اس لیے کہ آپ نے اول عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔ جس میں یوم الفطربھی داخل ہے۔ جس میں روزہ رکھنا منع ہے۔ حافظ ؒفرماتے ہیں : إن المرأة لا تعتکف حتی تستأذن زوجها و إنها إذا اعتکفت بغیر إذنه کان له أن یخرجها و فیه جواز ضرب الأخبیة في السمجد و إن الأفضل للنساء أن لا یعتکفن في المسجد و فیه إن أول الوقت الذي یدخل فیه المعتکف بعد صلوة الصبح و هو قول الأوزاعي و قال الأئمة الأربعة و طائفة یدخل قبیل غروب الشمس و أولوا الحدیث علی أنه دخل من أول اللیل و لکن إنما تخلی بنفسه في المکان الذي أعدہ لنفسه بعد صلاة الصبح الخ۔ یعنی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہ کرے اور بغیر اجازت اعتکاف کی صورت خاوند کو حق ہے کہ وہ عورت کا اعتکاف ختم کرادے۔ اور اعتکاف کے لیے مساجد میں خیمہ لگانا درست ہے اور عورتوں کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ مساجد میں اعتکاف نہ کریں اور معتکف کے لیے اپنی جگہ میں داخل ہونے کا وقت نماز فجر کے بعد کا وقت ہے۔ یہ اوزاعی کا قول ہے لیکن ائمہ اربعہ اور ایک جماعت علماءکا قول یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے قبل اپنے مقام میں داخل ہو اور حدیث مذکورہ کا مطلب انہوں نے یوں بیان کیا کہ آپ اول را ت ہی میں داخل ہو گئے تھے مگر جو جگہ آپ نے اعتکاف کے لیے مخصوص فرمائی تھی اس میں فجر کے بعد داخل ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amra (RA): Aisha said, "the Prophet (ﷺ) used to practice Itikaf in the last ten days of Ramadan and I used to pitch a tent for him, and after offering the morning prayer, he used to enter the tent." Hafsah (RA) asked the permission of 'Aisha (RA) to pitch a tent for her and she allowed her and she pitched her tent. When Zainab bint Jahsh saw it, she pitched another tent. In the morning the Prophet (ﷺ) noticed the tents. He said, 'What is this?" He was told of the whole situation. Then the Prophet (ﷺ) said, "Do you think that they intended to do righteousness by doing this?" He therefore abandoned the Itikaf in that month and practiced Itikaf for ten days in the month of Shawwal."