Sahi-Bukhari:
Retiring to a Mosque for Remembrance of Allah (I'tikaf)
(Chapter: I'tikaf in the middle ten days of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2044.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔
تشریح:
(1) اعتکاف کے لیے اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے کیونکہ اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے لیکن یہ ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ ﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ محدثین نے اس کی کئی ایک وجوہات لکھی ہیں: ٭ چونکہ آپ کو وفات کا علم ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا تاکہ وہ عمر کے آخری حصے میں عبادات میں زیادہ محنت کریں۔ ٭ حضرت جبرئیل ؑ سال میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺؑ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن وفات کے سال دو مرتبہ دور کیا، اس لیے آپ نے بھی اعتکاف کی مدت بڑھا دی۔ ٭ رسول اللہ ﷺ ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تھے، اس لیے آپ نے اس کی تلافی کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ ٭ بیویوں کے خیمے لگانے کی وجہ سے آپ نے رمضان کا اعتکاف ترک کر دیا تھا اگرچہ ماہ شوال میں اس کی تلافی ہو چکی تھی تاہم اسے مزید پختہ کرنے کے لیے آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر متعدد مرتبہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ہو، یعنی ایک دفعہ سفر کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ قرآن کریم کے دور کرنے کی بنا پر ایسا کیا ہو۔ (فتح الباري:362/4) لیکن حدیث کے الفاظ تعدد کے متحمل نہیں ہیں۔ واللہ أعلم (2) معتکف کی مثال اس غلام جیسی ہے جو اپنے آپ کو اپنے آقا کے آگے ڈال دے، پھر کہے کہ میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گی حتی کہ وہ مجھے معاف کر دے اور میرے گناہ بخش دے۔ (عمدةالقاري:289/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1984
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2044
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2044
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2044
تمہید کتاب
لغوی طور پر اعتکاف کے معنی "بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا" ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾) (الانبیآء52:21) "یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ان کی کیا حیثیت ہے؟" ایک دوسرے مقام پر یہ لفظ بایں طور استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ) (الاعراف138:7) "وہ لوگ اپنے چند بتوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔" شرعی اصطلاح میں اعتکاف کرنے کا مطلب "آدمی کا ایک خاص کیفیت کے ساتھ خود کو مسجد میں روک لینا ہے۔" رمضان میں اعتکاف یہ ہے کہ انسان رمضان کے آخری دس دن اور راتیں عبادت میں گزار دے اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ان دنوں کو اللہ کے ذکر کے لیے خاص کر دے۔ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی اسے نذر کے ذریعے سے اپنے اوپر لازم کرے تو پھر واجب ہو جاتا ہے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ:4/456) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسائل اعتکاف پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اسے نقل کرتے ہیں تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ واللہ المستعان٭ مشروعیت اعتکاف: سال کے تمام دنوں (رمضان اور غیر رمضان) میں اعتکاف کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کرنا ثابت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ماہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2045) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے انہیں فرمایا: "اپنی نذر پوری کرو۔" (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) البتہ ماہ رمضان میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ فوت ہوئے ہیں اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2044) تاہم افضل یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2784(1172))٭ شروط اعتکاف: اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ) (البقرۃ187:2) "اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔" اگر مسجد کے علاوہ اعتکاف جائز ہوتا تو ازدواجی تعلقات کی حرمت کو مسجد سے متعلق نہ کیا جاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ ضروری حاجت کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے اور نہ کسی بیمار کی تیمارداری ہی کرے، اس دوران میں اپنی بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت نہ کرے، اسی طرح ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔ معتکف کے لیے روزہ رکھنا بھی سنت ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/315) دوسری شرط یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں جمعہ ادا ہوتا ہو تاکہ اس کی ادائیگی کے لیے معتکف کو مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں نہ جانا پڑے کیونکہ جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں جمعہ کا اہتمام ہو۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473) معتکف کے لیے روزہ رکھنا مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معتکف کے لیے بحالت روزہ ہونا مسنون ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2473)٭ مباحات اعتکاف: معتکف انسانی حاجت کے لیے اپنی اعتکاف گاہ اور مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اسی طرح سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے لیے اپنا سر بھی مسجد سے باہر نکال سکتا ہے۔ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور میں اپنے حجرے میں بحالت حیض آپ کے سر میں کنگھی کرتی۔ایک روایت میں ہے: میں آپ کا سر دھوتی۔ میرے اور آپ کے درمیان دروازے کی چوکھٹ ہوتی۔ اور آپ جب معتکف ہوتے تو ضروری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2029) معتکف کے لیے مسجد کے اندر وضو کرنا بھی جائز ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بحالت اعتکاف) مسجد میں ہلکا سا وضو فرمایا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/322) اعتکاف کے لیے مسجد کے پچھلے حصے میں خیمہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کے لیے چھوٹا سا ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2033) اور خیمہ لگانے کا اہتمام آپ کے حکم سے ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم،الاعتکاف،حدیث:2785(1173))اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ معتکف اطمینان و سکون سے اللہ کی عبادت میں لگا رہے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف میں سادگی برقرار رکھتے تھے۔ اس کے برعکس وہ جہلاء جنہیں شہرت اور نمائش و پارسائی مقصود ہوتی ہے وہ اعتکاف بیٹھنے کے لیے دس آدمیوں کی جگہ گھیر لیتے ہیں اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ معتکف کے لیے مسجد میں بستر یا چارپائی بھی بچھائی جا سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے "توبہ کے ستون" کے پیچھے بستر لگا دیا جاتا یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2038)٭ معتکف سے ملاقات: اعتکاف گاہ میں عورت اپنے خاوند سے ملاقات کے لیے آ سکتی ہے، اسی طرح خاوند بھی مسجد کے دروازے تک اسے چھوڑنے جا سکتا ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں معتکف تھے اور آپ کے پاس دیگر ازواج بھی موجود تھیں۔ میں نے چند گھڑیاں آپ سے گفتگو میں مصروف رہنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: "جلدی نہ کرنا، میں تمہیں چھوڑنے جاتا ہوں۔" پھر آپ مجھے چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حویلی میں تھا۔) جب آپ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچے جہاں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ تھا تو آپ نے انصار کے دو آدمیوں کو دیکھا، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ آپ نے انہیں ٹھہرنے کے لیے آواز دی اور فرمایا: "یہ عورت میری بیوی صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا ہے۔" انہوں نے آپ کی وضاحت سن کر کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! ہم آپ کے متعلق غلط بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر آپ نے فرمایا: "شیطان کی وسوسہ اندازی یوں سرایت کر جاتی ہے جیسا کہ انسان کے رگ و ریشے میں خون چلتا ہے اور مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال آ جائے۔" (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1774)٭ عورت کے لیے اعتکاف: عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک مستحاضہ (جسے بیماری کی وجہ سے خون آتا ہو) عورت نے آپ کے ہمراہ اعتکاف کیا اور اسے مخصوص ایام کے علاوہ خون آ جاتا، بعض اوقات دوران نماز میں اس کی حالت غیر ہو جاتی، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی انتظام کرنا پڑتا، یعنی کوئی برتن وغیرہ وہاں رکھ دیا جاتا تاکہ مسجد، خون سے آلودہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری،الحیض،حدیث:310) ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، زندگی بھر آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاری،الاعتکاف،حدیث:2026) اس حدیث سے عورت کے لیے اعتکاف کرنے کا جواز مطلق نہیں بلکہ اپنے خاوند یا دوسرے سرپرست کی اجازت پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات سازگار ہوں۔ وہاں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ یا دیگر غیر محارم سے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ شرائط شریعت کے بے شمار دلائل کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فقہی اصول بھی ہے کہ مفاسد کو روکنا حصول منافع پر مقدم ہوتا ہے، لہذا ان تمام شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعتکاف سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے "کتاب الاعتکاف" میں بائیس متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے اور ان پر انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جنہیں ہم آئندہ ترجمہ و فوائد کے ساتھ بیان کریں گے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔ صرف معلومات میں اضافے کے لیے انہیں پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اعتکاف کے لیے رمضان کا آخری عشرہ ضروری نہیں۔ گو آخری عشرے میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اعتکاف کے لیے اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے کیونکہ اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے لیکن یہ ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ ﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ محدثین نے اس کی کئی ایک وجوہات لکھی ہیں: ٭ چونکہ آپ کو وفات کا علم ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا تاکہ وہ عمر کے آخری حصے میں عبادات میں زیادہ محنت کریں۔ ٭ حضرت جبرئیل ؑ سال میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺؑ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن وفات کے سال دو مرتبہ دور کیا، اس لیے آپ نے بھی اعتکاف کی مدت بڑھا دی۔ ٭ رسول اللہ ﷺ ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تھے، اس لیے آپ نے اس کی تلافی کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ ٭ بیویوں کے خیمے لگانے کی وجہ سے آپ نے رمضان کا اعتکاف ترک کر دیا تھا اگرچہ ماہ شوال میں اس کی تلافی ہو چکی تھی تاہم اسے مزید پختہ کرنے کے لیے آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر متعدد مرتبہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ہو، یعنی ایک دفعہ سفر کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ قرآن کریم کے دور کرنے کی بنا پر ایسا کیا ہو۔ (فتح الباري:362/4) لیکن حدیث کے الفاظ تعدد کے متحمل نہیں ہیں۔ واللہ أعلم (2) معتکف کی مثال اس غلام جیسی ہے جو اپنے آپ کو اپنے آقا کے آگے ڈال دے، پھر کہے کہ میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گی حتی کہ وہ مجھے معاف کر دے اور میرے گناہ بخش دے۔ (عمدةالقاري:289/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن ابی شبیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا، اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ابن بطال نے کہا اس سے یہ نکلتا ہے کہ اعتکاف سنت موکدہ ہے، اور ابن منذر نے ابن شہاب سے نکالا کہ مسلمانوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کرنا چھوڑ دیا، حالانکہ آنحضرت ﷺ جب سے مدینہ میں تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے وفات تک اعتکاف تر ک نہیں فرمایا تھا۔ اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف اس لیے کیا کہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اب وفات قریب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) used to perform Itikaf every year in the month of Ramadan for ten days, and when it was the year of his death, he stayed in Itikaf for twenty days.