باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ( یعنی رزق حلال کی تلاش میں اپنے کارو بار کو سنبھال لو ) اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور جب انہوں نے سودا بکتے دیکھا یا کوئی تماشا دیکھا تو اس کی طرف متفرق ہو گئے اور تجھ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تماشے اور سوداگری سے بہتر ہے اور اللہ ہی ہے بہتر روزی رز ق دینے والا۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: What has come in the Statement of Allah Ta'ala: "Then when the Salat is ended, you may disperse through the land, and seek the Bounty of Allah ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” تم لوگ ایک دوسرے کا مال غلط طریقوںسے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تمہارے درمیان کوئی تجارت کا معاملہ ہو تو آپس کی رضامندی کے ساتھ ( معاملہ ٹھیک ہے )۔ “تشریح : بیوع بیع کی جمع ہے جو باب ضرب یضرب سے معتل یائی ہے جس کے معنی خرید و فروخت کے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی اللہ اور اس کے سچے رسول ﷺ نے بہت سی پاکیزہ ہدایات دی ہیں۔ بیچنے والوں کو عام طور پر لفظ تاجر سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و نحن نسمی السماسرۃ فقال یا معشر التجار و فی روایۃ ابی داود فمر بنا النبی ﷺ فسمانا باسم ہو احسن منہ فقال یا معشر التجار ان الشیطان و الاثم یحضران البیع فشوبوا بیعکم بالصدقۃ ( رواہ الترمذی ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں پر گزرے جب کہ عام طور پر ہم کو لفظ سماسرہ ( سوداگران ) سے پکا رجاتا تھا۔ آپ نے ہم کو بہتر نئے نام سے موسوم فرمایا، اور یوں ارشاد ہوا کہ ”اے تاجروں کی جماعت بے شک شیطان اور گناہ خرید وفروخت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے بیع کے ساتھ صدقہ خیرات کو بھی شامل کرلو، تاکہ ان اغلاط کا کچھ کفارہ بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا رہے ! تجارت کی فضیلت میں حضرت ابوسعید ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا التاجر الصدوق الامین مع النبیین و الصدیقین و الشہداء ( رواہ الترمذی ) امانت اور صداقت کے ساتھ تجارت کرنے والا مسلمان قیامت کے دن انبیاءاور صدیقین اور شہداءکے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے کہ امانت اور دیانت کے ساتھ تجارت کرنا بھی اتنا ہی کٹھن کام ہے جتنا کہ انبیاءو صدیقین اور شہداءکا مشن کٹھن ہوتا ہے۔ عن اسماعیل بن عبید بن رفاعۃ عن ابیہ عن جدہ انہ خرج مع النبی ﷺم الی المصلی فرای الناس یتبایعون فقال یا معشر التجار فاستجابوا لرسول اللہﷺ و رفعوا اعناقہم و ابصارہم الیہ فقال ان التجار یبعثون یوم القیامۃ فجاراً الا من اتقی و بر و صدق ( رواہ الترمذی ) یعنی ایک دن آنحضرتﷺ نماز کے لیے نکلے کہ آپ نے راستے میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھا فرمایا کہ اے تاجروں کی جماعت ! ان سب نے آ پ کی طرف اپنی گردنوں اور آنکھوں کو اٹھایا۔ اور آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا کے بے شک تاجر لوگ قیامت کے دن فاسق و فاجر لوگوں میں اٹھائے جائیں گے۔ مگر جس نے اس پیشہ کو اللہ کے خوف کے تحت سچائی اور نیک شعاری کے ساتھ انجام دیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہوگا۔ ان میں اول نمبر احسان جتلانے والا، دوسرے نمبر پر اپنے پاجامہ تہبند کو فخریہ ٹخنوں سے نیچے گھیسٹنے والا، تیسرا اپنے مال کو جھوٹی قسمیں کاکھا کر فروخت کرنے والا۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں قال القاضی لما کان من دیدن التجار التدلیس فی المعاملات و التہالک علی تزویج السلع بما تیسر لہم من الایمان الکاذبۃ و نحوہا حکم علیم بالفجور و استثنی منہم من اتقی المحارم و بر فی یمینہ و صدق فی حدیثہ و الی ہذا ذہب الشارحون و حملوا الفجور علی اللغو والحلف کذا فی المرقاۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی قاضی نے کہا کہ معاملات میں دھوکا دینا اور مال نکالنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاجروں کا عام شیوہ ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان پر فاجر ہونے کا حکم فرمایا، مگر ان کو مستثنیٰ فرمایا جو حرام سے بچیں اور قسم میں سچائی کو سامنے رکھیں۔ اور اکثر شارح ادھر ہی گئے ہیں کہ فجور سے لغویات اور جھوٹی قسم کھانا مرا دہیں۔
2050.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز جاہلیت کے دور میں منڈیاں تھیں۔ جب اسلام کادور آیا تو کچھ لوگوں نے ان منڈیوں میں کاروبار کرنا گناہ تصور کیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’تم پر اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ایام حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ کی یہی قراءت ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں یہ حدیث کتاب الحج بیان کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایام حج میں تجارت کی جاسکتی ہے،نیز جاہلیت کی منڈیوں میں خریدوفروخت کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔چونکہ اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکر ہے اور اسلام نے اپنے عہد میں ان تجارتی منڈیوں کو خوب ترقی دی اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی،اس سے اس پیشے کی اہمیت وافادیت کا پتہ چلتا ہے۔حضرت ابن عباس ؓ قراءت مشہورہ کے برعکس اس آیت کے آخر میں (في مواسم الحج) کے الفاظ پڑھتے تھے۔ممکن ہے کہ مذکورہ الفاظ آیت کا حصہ ہوں، جسے منسوخ کردیا گیا لیکن حضرت ابن عباس ؓ کو اس کا علم نہ ہوسکا ۔اسے قراءت شاذ کہتے ہیں جس سے قراءت ثابت نہیں ہوتی، البتہ مسائل کے اخذ واستنباط میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ (فتح الباري:388/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1990
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2050
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2050
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2050
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
پہلی آیت میں ہے کہ تم نماز جمعہ سے فراغت کے بعد" اللہ کا فضل تلاش کرو " اللہ کے فضل کی تلاش سے مراد تجارت اور دیگر ذرائع کسب ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے اباحت تجارت کو ثابت کیا ہے،اگرچہ آیت کے آخری حصے سے اس کی کراہت ثابت ہوتی ہے لیکن وہ اس صورت میں ہے جب تجارت،اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض میں رکاوٹ کا باعث۔چونکہ اہل کتاب عبادت کے دن کسب معاش کو حرام خیال کرتے تھے ،ان کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے عبادت کے دن اسے مباح قرار دیا ہے۔( فتح الباری:4/366)دوسری آیت سے ایک اہم اصول کی طرف اشارہ کیا کہ خریدوفروخت اس صورت میں حلال اور جائز ہے کہ فریقین معاملۂ بیع پر رضامند ہوں جیسا کہ حدیث نبوی ہے:"خریدوفروخت باہمی رضامندی ہی سے جائز ہے۔"( سنن ابن ماجہ،التجارات،حدیث:2185) جب فروخت کار اور خریدار دونوں مجلس بیع سے جدا ہوتے وقت رضامند ہوں تو فروخت کی جانے والی چیز بیچنے والے کی ملکیت سے خریدنے والے کی ملکیت کی طرف منتقل ہوجاتی ہے بشرطیکہ ایسی اشیاء میں سے ہو جن کی تجارت جائز ہے۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف مال کے منتقل ہونے میں فریقین کی رضامندی اور ان کی خوشنودی ہی کا تقاضا کیا ہے،خواہ وہ رضامندی اشارے سے ہو یا تحریر سے یا باہمی بات چیت سے۔حدیث میں ہے:"کسی مسلمان آدمی کامال اس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہوتا۔"( السنن الکبریٰ للبیھقی:8/97)تفصیل بالا سے مندرجہ ذیل اصول تجارت سامنے آتے ہیں:٭تجارت کی بنیاد باہمی رضامندی پر ہے،اگر کسی طور پر باہمی رضامندی میں خلل موجود ہے تو بیع جائز نہیں ہوگی۔٭معاہدۂ بیع کے وقت فریقین ، فیصلے میں آذاد، اس معاہدے کے ہر پہلو پر مطلع اور اس کے نتائج سے آگاہ ہونے چاہییں،اگر ایسا نہیں تو بیع جائز نہیں ہوگی۔٭باہمی رضامندی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر خریدوفروخت کا عمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ اسی مجلس میں معاہدۂ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے تو اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔ملاحظہ: سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضامندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔جوا کھیلنے والا اس لیے رضامند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کو ہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتا ہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضامندی نہ ہواور اسے پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” تم لوگ ایک دوسرے کا مال غلط طریقوںسے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تمہارے درمیان کوئی تجارت کا معاملہ ہو تو آپس کی رضامندی کے ساتھ ( معاملہ ٹھیک ہے )۔ “تشریح : بیوع بیع کی جمع ہے جو باب ضرب یضرب سے معتل یائی ہے جس کے معنی خرید و فروخت کے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی اللہ اور اس کے سچے رسول ﷺ نے بہت سی پاکیزہ ہدایات دی ہیں۔ بیچنے والوں کو عام طور پر لفظ تاجر سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و نحن نسمی السماسرۃ فقال یا معشر التجار و فی روایۃ ابی داود فمر بنا النبی ﷺ فسمانا باسم ہو احسن منہ فقال یا معشر التجار ان الشیطان و الاثم یحضران البیع فشوبوا بیعکم بالصدقۃ ( رواہ الترمذی ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں پر گزرے جب کہ عام طور پر ہم کو لفظ سماسرہ ( سوداگران ) سے پکا رجاتا تھا۔ آپ نے ہم کو بہتر نئے نام سے موسوم فرمایا، اور یوں ارشاد ہوا کہ ”اے تاجروں کی جماعت بے شک شیطان اور گناہ خرید وفروخت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے بیع کے ساتھ صدقہ خیرات کو بھی شامل کرلو، تاکہ ان اغلاط کا کچھ کفارہ بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا رہے ! تجارت کی فضیلت میں حضرت ابوسعید ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا التاجر الصدوق الامین مع النبیین و الصدیقین و الشہداء ( رواہ الترمذی ) امانت اور صداقت کے ساتھ تجارت کرنے والا مسلمان قیامت کے دن انبیاءاور صدیقین اور شہداءکے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے کہ امانت اور دیانت کے ساتھ تجارت کرنا بھی اتنا ہی کٹھن کام ہے جتنا کہ انبیاءو صدیقین اور شہداءکا مشن کٹھن ہوتا ہے۔ عن اسماعیل بن عبید بن رفاعۃ عن ابیہ عن جدہ انہ خرج مع النبی ﷺم الی المصلی فرای الناس یتبایعون فقال یا معشر التجار فاستجابوا لرسول اللہﷺ و رفعوا اعناقہم و ابصارہم الیہ فقال ان التجار یبعثون یوم القیامۃ فجاراً الا من اتقی و بر و صدق ( رواہ الترمذی ) یعنی ایک دن آنحضرتﷺ نماز کے لیے نکلے کہ آپ نے راستے میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھا فرمایا کہ اے تاجروں کی جماعت ! ان سب نے آ پ کی طرف اپنی گردنوں اور آنکھوں کو اٹھایا۔ اور آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا کے بے شک تاجر لوگ قیامت کے دن فاسق و فاجر لوگوں میں اٹھائے جائیں گے۔ مگر جس نے اس پیشہ کو اللہ کے خوف کے تحت سچائی اور نیک شعاری کے ساتھ انجام دیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہوگا۔ ان میں اول نمبر احسان جتلانے والا، دوسرے نمبر پر اپنے پاجامہ تہبند کو فخریہ ٹخنوں سے نیچے گھیسٹنے والا، تیسرا اپنے مال کو جھوٹی قسمیں کاکھا کر فروخت کرنے والا۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں قال القاضی لما کان من دیدن التجار التدلیس فی المعاملات و التہالک علی تزویج السلع بما تیسر لہم من الایمان الکاذبۃ و نحوہا حکم علیم بالفجور و استثنی منہم من اتقی المحارم و بر فی یمینہ و صدق فی حدیثہ و الی ہذا ذہب الشارحون و حملوا الفجور علی اللغو والحلف کذا فی المرقاۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی قاضی نے کہا کہ معاملات میں دھوکا دینا اور مال نکالنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاجروں کا عام شیوہ ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان پر فاجر ہونے کا حکم فرمایا، مگر ان کو مستثنیٰ فرمایا جو حرام سے بچیں اور قسم میں سچائی کو سامنے رکھیں۔ اور اکثر شارح ادھر ہی گئے ہیں کہ فجور سے لغویات اور جھوٹی قسم کھانا مرا دہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز جاہلیت کے دور میں منڈیاں تھیں۔ جب اسلام کادور آیا تو کچھ لوگوں نے ان منڈیوں میں کاروبار کرنا گناہ تصور کیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’تم پر اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ایام حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ کی یہی قراءت ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں یہ حدیث کتاب الحج بیان کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایام حج میں تجارت کی جاسکتی ہے،نیز جاہلیت کی منڈیوں میں خریدوفروخت کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔چونکہ اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکر ہے اور اسلام نے اپنے عہد میں ان تجارتی منڈیوں کو خوب ترقی دی اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی،اس سے اس پیشے کی اہمیت وافادیت کا پتہ چلتا ہے۔حضرت ابن عباس ؓ قراءت مشہورہ کے برعکس اس آیت کے آخر میں (في مواسم الحج) کے الفاظ پڑھتے تھے۔ممکن ہے کہ مذکورہ الفاظ آیت کا حصہ ہوں، جسے منسوخ کردیا گیا لیکن حضرت ابن عباس ؓ کو اس کا علم نہ ہوسکا ۔اسے قراءت شاذ کہتے ہیں جس سے قراءت ثابت نہیں ہوتی، البتہ مسائل کے اخذ واستنباط میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ (فتح الباري:388/4)
ترجمۃ الباب:
اور ارشاد باری تعالیٰ :’’ اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تجارت تمہاری باہمی رضا مندی سے ہو (تو وہ حلال اور جائز ہے )‘‘ کا بیان
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ عکاظ مجنہ، اور ذو المجاز عہد جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو ایسا ہوا کہ مسلمان لوگ ( خرید و فروخت کے لیے ان بازاروں میں جانا ) گناہ سمجھنے لگے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی: ”تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل ( یعنی رزق حلال ) کی تلاش کرو حج کے موسم میں۔“ یہ ابن عباس ؓ کی قرات ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کی قرات میں آیت کریمہ ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ﴾ سے آگے في موسم الحج کے لفظ زائد ہیں۔ مگر عام قراتوں میں یہ زائد لفظ نہیں ہیں یا شاید یہ منسوخ ہو گئے ہوں اور حضرت ابن عباس ؓ کو نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو۔ حدیث میں زمانہ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکرہے۔ اسلام نے اپنے عہد میں تجارتی منڈیوں کو ترقی دی، اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر خرافات اور مکر و فریب والوں کے لیے بازار سے بدتر کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): 'Ukaz, Majanna and Dhul-Majaz were market-places in the Pre-lslamic period of ignorance. When Islam came, Muslims felt that marketing there might be a sin. So, the Divine Inspiration came: "There is no harm for you to seek the bounty of your Lord (in the seasons of Hajj)." (2.198) Ibn 'Abbas (RA) recited the Verse in this way. ________