Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Explanation of doubtful (unclear) things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ ” ورع “ ( پرہیزگاری ) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
2053.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ا پنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا میرے نطفے سے ہے، لہذا تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے قبضے میں لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے اسے لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ (اس وقت) عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے یعنی میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں جھگڑتے جھگڑتے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرا بھتیجا ہے۔ میرے بھائی نے اسے تحویل میں لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے ہے، نیز اس کے بستر ہی پر پیدا ہوا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’عبد بن زمعہ!یہ بچہ تجھے ملے گا۔‘‘ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مزید فرمایا: ’’بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہیں۔‘‘ اس کے بعد اُم المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ ؓسے فرمایا: ’’تم اس(بچے) سے پردہ کرو۔ ‘‘ کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عتبہ کی مشابہت دیکھی، چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملا۔
تشریح:
(1) دور جاہلیت میں لونڈیاں زنا کرتی تھیں اور بڑے بڑے امراء ان کے پاس آتے تھے، جب کوئی لونڈی اس غلط کاری کے نتیجے میں حاملہ ہوجاتی تو کبھی اس کا مالک دعوی کرتا اور کبھی زانی اقرار کرتا کہ یہ حمل اس کا ہے ۔حضرت ام المومنین سودہ ؓ کے والد زمعہ کی لونڈی کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا، اس سے عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔اس نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل میرے نطفے سے ہے۔جب وہ بچہ جنم لے تو اسے اپنی تحویل میں لے لینا۔فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہا لیکن زمعہ کا بیٹا آڑے آیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے جاہلیت کا قانون باطل قرار دیتے ہوئے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:’’بچہ صاحب فراش( بستر والے) کا ہے اور زانی اس سے محروم ہے ۔‘‘ مگر بچے کی مشابہت عقبہ بن ابی وقاص سے تھی، اس شبہے کی بنیاد پر آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکے سے پردہ کریں اگرچہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناتے سے اس لڑکے کی بہن تھیں۔(2)امام بخاری ؒ کے نزدیک حضرت سودہ ؓ کو پردے کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیا گیا کیونکہ باندی کے ناجائز تعلقات عقبہ کے ساتھ تھے اور بچے کی شکل و صورت بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشتباہ کی تفسیر فرمائی اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم ثابت کیا۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دینا ہے،حالانکہ نبی ﷺ نے قانون اور شرعی اعتبار سے اسے ان کا بھائی قرار دیا تھا مگر اس بات کا قومی شبہ تھا کہ وہ عقبہ ہی کا لڑکا ہو جیسا کہ شکل وصورت کی ہم آہنگی سے پتہ چلتا تھا،اس لیے احتیاط کے پیش نظر آپ نے پردے کا حکم دیا۔ ( فتح الباري:371/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1993
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2053
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2053
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2053
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
اس تعلیق کو امام مروزی نے کتاب الورع،-----احمد بن حنبل میں متصل سند سے بیان کیا ہے (کتاب الودع،ص83) بعض روایات کے مطابق انھوں نے فرمایا:جس چیز کے متعلق تمھیں شک پڑجائے اسے ترک کردو۔حضرت حسان رحمہ اللہ کا فرمان کہ جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو۔یہ دراصل ایک مرفوع حدیث ہے جسے امام ترمذی، نسائی، احمد، ابن حبان اور امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔( جامع الترمذی،صفۃ القیامۃ،حدیث:2518) امام بخاری رحمہ اللہ کی قبل ازیں بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا تھا کہ اکثر لوگ مشتبہ چیزوں کو نہیں جانتے، اس کامطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ اس کے متعلق معلومات رکھتے ہیں،اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ضروری خیال کیا کہ مشتبہ چیزوں کے متعلق کوئی ضابطہ بیان کیا جائے جس کے ذریعے سے انھیں پہچانا جاسکے تاکہ ان سے بچنا آسان ہو۔
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ ” ورع “ ( پرہیزگاری ) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ا پنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا میرے نطفے سے ہے، لہذا تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے قبضے میں لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے اسے لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ (اس وقت) عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے یعنی میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں جھگڑتے جھگڑتے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرا بھتیجا ہے۔ میرے بھائی نے اسے تحویل میں لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے ہے، نیز اس کے بستر ہی پر پیدا ہوا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’عبد بن زمعہ!یہ بچہ تجھے ملے گا۔‘‘ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مزید فرمایا: ’’بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہیں۔‘‘ اس کے بعد اُم المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ ؓسے فرمایا: ’’تم اس(بچے) سے پردہ کرو۔ ‘‘ کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عتبہ کی مشابہت دیکھی، چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دور جاہلیت میں لونڈیاں زنا کرتی تھیں اور بڑے بڑے امراء ان کے پاس آتے تھے، جب کوئی لونڈی اس غلط کاری کے نتیجے میں حاملہ ہوجاتی تو کبھی اس کا مالک دعوی کرتا اور کبھی زانی اقرار کرتا کہ یہ حمل اس کا ہے ۔حضرت ام المومنین سودہ ؓ کے والد زمعہ کی لونڈی کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا، اس سے عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔اس نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل میرے نطفے سے ہے۔جب وہ بچہ جنم لے تو اسے اپنی تحویل میں لے لینا۔فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہا لیکن زمعہ کا بیٹا آڑے آیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے جاہلیت کا قانون باطل قرار دیتے ہوئے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:’’بچہ صاحب فراش( بستر والے) کا ہے اور زانی اس سے محروم ہے ۔‘‘ مگر بچے کی مشابہت عقبہ بن ابی وقاص سے تھی، اس شبہے کی بنیاد پر آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکے سے پردہ کریں اگرچہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناتے سے اس لڑکے کی بہن تھیں۔(2)امام بخاری ؒ کے نزدیک حضرت سودہ ؓ کو پردے کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیا گیا کیونکہ باندی کے ناجائز تعلقات عقبہ کے ساتھ تھے اور بچے کی شکل و صورت بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشتباہ کی تفسیر فرمائی اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم ثابت کیا۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دینا ہے،حالانکہ نبی ﷺ نے قانون اور شرعی اعتبار سے اسے ان کا بھائی قرار دیا تھا مگر اس بات کا قومی شبہ تھا کہ وہ عقبہ ہی کا لڑکا ہو جیسا کہ شکل وصورت کی ہم آہنگی سے پتہ چلتا تھا،اس لیے احتیاط کے پیش نظر آپ نے پردے کا حکم دیا۔ ( فتح الباري:371/4)
ترجمۃ الباب:
حسان بن ابو سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے پرہیز گاری سے زیادہ آسان کوئی چیز نہیں دیکھی، جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کروجو شک میں نہ ڈالے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر ؓ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص ( کافر ) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ( مسلمان ) کو ( مرتے وقت ) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد ؓ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ سعد ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عبد بن زمعہ ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھر وں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ ؓ سے جو آنحضرت ﷺ کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیوں کہ آپ ﷺ نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ ؓ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ مشہور صحابی کا بھائی تھا۔ عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔ لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔ اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔ مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔ اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ ﷺ نے یہ قانون پیش فرمایا کہ ”الولدُ للفراشِ و للعاهرِ الحجرُ“بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔ اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔ اس قانون کے تحت آنحضرت ﷺ نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت ﷺ نے حضرت ام المومنین سودہ ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔ مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔ حضرت امام بخاری ؒ کے نزدیک سودہ ؓ کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔ امام بخاری ؒ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: و وجه الدلالة منه قوله صلی اللہ علیه وسلم احتجبي منه یا سودة مع حکمه بأنه أخوها لأبیها لکن لما رأی الشبه البین فیه من غیر زمعة أمر سودة بالاحتجاب منه احتیاطا في قول الأکثر۔(فتح الباري) یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت ﷺ کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ ؓ کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔ حضرت سودہ ؓ نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔ بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Utba bin Abu Waqqas took a firm promise from his brother Sad bin Abu Waqqas to take the son of the slave-girl of Zam'a into his custody as he was his (i.e. 'Utba's) son. In the year of the Conquest (of Makkah) Sad bin Abu Waqqas took him, and said that he was his brother's son, and his brother took a promise from him to that effect. 'Abu bin Zam'a got up and said, "He is my brother and the son of the slave-girl of my father and was born on my father's bed." Then they both went to the Prophet (ﷺ) Sad said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He is the son of my brother and he has taken a promise from me that I will take him." 'Abu bin Zam'a said, "(He is) my brother and the son of my father's slave-girl and was born on my father's bed." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The boy is for you. O 'Abu bin Zam'a." Then the Prophet (ﷺ) said, "The son is for the bed (i.e the man on whose bed he was born) and stones (disappointment and deprivation) for the one who has done illegal sexual intercourse." The Prophet (ﷺ) told his wife Sauda bint Zam'a to screen herself from that boy as he noticed a similarity between the boy and 'Utba. So, the boy did not see her till he died. ________