باب: ( سورۃ جمعہ میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جب سوداگری یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2058.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: ’’جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔‘‘
تشریح:
(1)دراصل مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی۔اس بنا پر غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔انھی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ شام سے غلے اور اناج کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ آپہنچا ۔انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کردی۔خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک جائے گا، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔اس آیت کریمہ میں میٹھی زبان سے عتاب کیا گیا کہ قافلے والے تمھارے رازق تو نہ تھے، رزق کے اسباب مہیا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا تمھیں آئندہ ایسی باتوں سے بچنا چاہیے ۔چونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے حدیث میں خطبے کی سماعت کرنے والوں کو نماز پڑھنے والے کہا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ تجارت اگرچہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کا تعلق کسب حلال سے ہے لیکن کبھی یہ مذموم بھی ہوجاتی ہے جب اس سے اہم اور ضروری چیز پر اسے مقدم کیا جائے۔چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آخر نماز تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے مگر وہ اس اہم اور ضروری امر کو چھوڑ کر تجارت کی طرف چلے گئے، اس لیے یہ تجارت ان کے لیے عتاب کا سبب بن گئی۔پوری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اور جب انھوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ کہہ دیجیے!جو اللہ کے پاس ہے وہ اس تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔'‘‘(الجمعة:11:62)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1998
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2058
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2058
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2058
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: ’’جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1)دراصل مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی۔اس بنا پر غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔انھی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ شام سے غلے اور اناج کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ آپہنچا ۔انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کردی۔خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک جائے گا، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔اس آیت کریمہ میں میٹھی زبان سے عتاب کیا گیا کہ قافلے والے تمھارے رازق تو نہ تھے، رزق کے اسباب مہیا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا تمھیں آئندہ ایسی باتوں سے بچنا چاہیے ۔چونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے حدیث میں خطبے کی سماعت کرنے والوں کو نماز پڑھنے والے کہا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ تجارت اگرچہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کا تعلق کسب حلال سے ہے لیکن کبھی یہ مذموم بھی ہوجاتی ہے جب اس سے اہم اور ضروری چیز پر اسے مقدم کیا جائے۔چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آخر نماز تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے مگر وہ اس اہم اور ضروری امر کو چھوڑ کر تجارت کی طرف چلے گئے، اس لیے یہ تجارت ان کے لیے عتاب کا سبب بن گئی۔پوری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اور جب انھوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ کہہ دیجیے!جو اللہ کے پاس ہے وہ اس تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔'‘‘(الجمعة:11:62)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے کہ مجھ سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یعنی خطبہ سن رہے تھے ) کہ ملک شام سے کچھ اونٹ کھانے کا سامان تجارت لے کر آئے۔ ( سب نمازی ) لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ”جب وہ مال تجارت یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔ لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔ شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود ؓ آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے۔ صحابہ کرام ؓ کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔ ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔ شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔ امام بخاری ؒ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یادالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔ جن کا محض بقائے حیات کے لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): While we were offering the prayer with the Prophet (ﷺ) a caravan carrying food came from Sham. The people looked towards the caravan (and went to it) and only twelve persons remained with the Prophet. So, the Divine Inspiration came; "But when they see some bargain or some amusement, they disperse headlong to it." (62.11) ________