Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The mentioning of the tailor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2092.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کوکھانے کی دعوت دی جو اس نے خود تیار کیاتھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے روٹی، کدو کا شوربا اور سوکھا گوشت رکھا۔ میں نے نبی ﷺ کو پیالے کے ادھر اُدھر سے کدوکو ڈھونڈتےدیکھا اس بنا پر میں اس دن سے کدو کو بہت پسند کرتا ہوں۔
تشریح:
(1)درزی کا پیشہ دوسری صنعتوں سے الگ نوعیت کا ہے کیونکہ زرکر اور لوہار صرف اپنی محنت کی مزدوری لیتے ہیں جبکہ درزی کے پیشے میں دھاگا اور بٹن وغیرہ درزی خود اپنی طرف سے لگاتا ہے۔علاوہ ازیں سلائی مشین کی الگ اجرت ہے لیکن انھیں ایک دوسرے سے سےالگ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا اس میں تجارت اور صنعت دونوں جمع ہیں۔(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک درزی نے آپ کو کھانا تناول فرمانے کی دعوت دی آپ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اس پیشے کے جواز کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ( عمدۃ القاری:8/363)(3) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت میں پکا ہوا کدو بہت مرغوب تھا، ویسے بھی یہ ایک عمدہ ترکاری ہےاور طبعی لحاظ سے بہت فائدہ مند اور نفع بخش ہے،بخار، خفقان، قبض اور بواسیر کے لیے مفید، نیز مانع خشکی وحرارت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2031
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2092
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2092
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2092
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کوکھانے کی دعوت دی جو اس نے خود تیار کیاتھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے روٹی، کدو کا شوربا اور سوکھا گوشت رکھا۔ میں نے نبی ﷺ کو پیالے کے ادھر اُدھر سے کدوکو ڈھونڈتےدیکھا اس بنا پر میں اس دن سے کدو کو بہت پسند کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1)درزی کا پیشہ دوسری صنعتوں سے الگ نوعیت کا ہے کیونکہ زرکر اور لوہار صرف اپنی محنت کی مزدوری لیتے ہیں جبکہ درزی کے پیشے میں دھاگا اور بٹن وغیرہ درزی خود اپنی طرف سے لگاتا ہے۔علاوہ ازیں سلائی مشین کی الگ اجرت ہے لیکن انھیں ایک دوسرے سے سےالگ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا اس میں تجارت اور صنعت دونوں جمع ہیں۔(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک درزی نے آپ کو کھانا تناول فرمانے کی دعوت دی آپ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اس پیشے کے جواز کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ( عمدۃ القاری:8/363)(3) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت میں پکا ہوا کدو بہت مرغوب تھا، ویسے بھی یہ ایک عمدہ ترکاری ہےاور طبعی لحاظ سے بہت فائدہ مند اور نفع بخش ہے،بخار، خفقان، قبض اور بواسیر کے لیے مفید، نیز مانع خشکی وحرارت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ نے ابی طلحہ نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے سنا کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا۔ انس بن مالک ؓ نے کہا میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کدو کے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی برابر کدو کو پسند کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ کدو نہایت عمدہ ترکاری ہے یعنی لمبا کدو سرد تر اور دافع تپ و خفقان و دافع حرارت و خشکی بدن ہوتا ہے اور قبض بواسیری کو دفع کرتا ہے۔ پیٹھے کی بھی یہی خاصیت ہے۔ گو کدو کھانا دین کا تو کوئی کام نہیں ہے کہ اس کی پیروی لازم ہو، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ا سکی مقتضی ہے کہ ہر مسلمان کدو سے رغبت رکھے جیسے انس رضی اللہ عنہ نے کیا۔ ( وحیدی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرنے والے صحابی خیاط تھے۔ درزی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درزی کا کام ثابت فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ishaq bin 'Abdullah bin Abu Talha (RA): I heard Anas bin Malik (RA) saying, "A tailor invited Allah's Apostle (ﷺ) to a meal which he had prepared. " Anas bin Malik (RA) said, "I accompanied Allah's Apostle (ﷺ) to that meal. He served the Prophet (ﷺ) with bread and soup made with gourd and dried meat. I saw the Prophet (ﷺ) taking the pieces of gourd from the dish." Anas added, "Since that day I have continued to like gourd." ________