Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The carpenter)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2095.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟اس لیے کہ میرا غلام بڑھئی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم چاہو تو بنواسکتی ہو۔ "چنانچہ اس عورت نے آپ کے لیے منبر بنوالیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی ﷺ اس منبر پر تشریف فرماہوئے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کھجور کا وہ تنا جس کے پاس آپ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھےآہیں بھر کر چیخنے لگا۔ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے۔ چنانچہ نبی ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگالیا۔ وہ تنا ایسے بچے کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے تاآنکہ وہ خاموش پڑگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کھجور کا تنا اس لیے رویا کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا۔ "
تشریح:
(1)بڑھئی کا پیشہ جائز ہے۔وہ اپنی محنت کی اجرت لیتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ وہ ہاتھ کا عمل ہونے کی وجہ سے بہترین کمائی ہے۔(2)عام طور پر یہ حضرات دو طرح سے کام کرتے ہیں:٭لکڑی وغیرہ مالک کی ہوتی ہے،البتہ بڑھئی دروازے، کھڑکیاں وغیرہ بنانے کی مزدوری لیتا ہے۔٭وہ لکڑی بھی اپنی طرف سے لگاتا ہےاور اس پر محنت بھی کرتا ہے۔ایسی صورت میں یہ تجارت اور اجرت ہے۔اس کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں، البتہ بعض اوقات لکڑی خریدنے کے بعد پتہ چلتا ہےکہ اندر سے بے کار اور کھوکھلی ہے۔ان حضرات کا محاورہ ہے کہ لکڑی اور ککڑی کو چیرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کس قسم کی ہے۔خراب نکلنے کی صورت میں بڑھئی کو کافی نقصان ہوتا ہے،اس لیے مالک کو چاہیے کہ وہ بڑھئی کے نقصان کی اخلاقی اعتبار سے تلافی کرے۔ بہر حال بڑھئی کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر تیار کرنے والا ایک بڑھئی غلام تھا۔آٌپ نے اس کا تیار کردہ منبر استعمال فرمایا اور اس پیشے پر کوئی انکار نہیں کیا۔ایک مسلمان اسے اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2034
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2095
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2095
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2095
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟اس لیے کہ میرا غلام بڑھئی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم چاہو تو بنواسکتی ہو۔ "چنانچہ اس عورت نے آپ کے لیے منبر بنوالیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی ﷺ اس منبر پر تشریف فرماہوئے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کھجور کا وہ تنا جس کے پاس آپ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھےآہیں بھر کر چیخنے لگا۔ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے۔ چنانچہ نبی ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگالیا۔ وہ تنا ایسے بچے کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے تاآنکہ وہ خاموش پڑگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کھجور کا تنا اس لیے رویا کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا۔ "
حدیث حاشیہ:
(1)بڑھئی کا پیشہ جائز ہے۔وہ اپنی محنت کی اجرت لیتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ وہ ہاتھ کا عمل ہونے کی وجہ سے بہترین کمائی ہے۔(2)عام طور پر یہ حضرات دو طرح سے کام کرتے ہیں:٭لکڑی وغیرہ مالک کی ہوتی ہے،البتہ بڑھئی دروازے، کھڑکیاں وغیرہ بنانے کی مزدوری لیتا ہے۔٭وہ لکڑی بھی اپنی طرف سے لگاتا ہےاور اس پر محنت بھی کرتا ہے۔ایسی صورت میں یہ تجارت اور اجرت ہے۔اس کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں، البتہ بعض اوقات لکڑی خریدنے کے بعد پتہ چلتا ہےکہ اندر سے بے کار اور کھوکھلی ہے۔ان حضرات کا محاورہ ہے کہ لکڑی اور ککڑی کو چیرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کس قسم کی ہے۔خراب نکلنے کی صورت میں بڑھئی کو کافی نقصان ہوتا ہے،اس لیے مالک کو چاہیے کہ وہ بڑھئی کے نقصان کی اخلاقی اعتبار سے تلافی کرے۔ بہر حال بڑھئی کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر تیار کرنے والا ایک بڑھئی غلام تھا۔آٌپ نے اس کا تیار کردہ منبر استعمال فرمایا اور اس پیشے پر کوئی انکار نہیں کیا۔ایک مسلمان اسے اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ ایک انصاری عورت نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز کیوں نہ بنوا دوں جس پر آپ ﷺ وعظ کے وقت بیٹھا کریں۔ کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا تمہاری مرضی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب منبر آپ ﷺ کے لیے اس نے تیار کیا۔ تو جمعہ کے دن جب آنحضرت ﷺ اس منبر پر بیٹھے تو اس کھجور کی لکڑی سے رونے کی آواز آنے لگی۔ جس پر ٹیک دے کر آپ ﷺ پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ لپٹ جائے گی۔ یہ دیکھ کر نبی کریم ﷺ منبر پر سے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے سینے سے سے لگا لیا۔ اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہی تھی جسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سنا کرتی تھی اس لیے روئی۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور منبر پر خطبہ پڑھنے لگے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم ایک لکڑی سے بھی ظاہر ہوا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لکڑی کو سینہ سے لگایا تب جا کر اس کا رونا بند ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا سے ثابت فرمایا کہ بڑھئی کا پیشہ بھی کوئی مذموم پیشہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان ان میں سے جو پیشہ بھی اس کے لیے آسان ہو اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔ ان احادیث سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ صنعت و حرفت کے متعلق بھی اسلام کی نگاہوں میں ایک ترقی یافتہ پلان ہے۔ بعد کے زمانوں میں جو بھی ترقیات اس سلسلہ میں ہوئی ہیں خصوصاً آج اس مشینی دور میں یہ جملہ فنون کس تیزی کے ساتھ منازل طے کر رہے ہیں بنیادی طور پر یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے مقدس نتائج ہیں۔ اس لحاظ سے اسلام کا یہ پوری دنیائے انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ اس نے دین اور دنیا ہر دو کی ترقی کا پیغام دے کر مذہب کی سچی تصوریر کو بنی نوع انسان کے سامنے آشکارا کیا ہے۔ سچ ہے ان الدین عند اللہ الاسلام( آل عمران : 19 )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): An Ansari woman said to Allah's Apostle, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I make something for you to sit on, as I have a slave who is a carpenter?" He replied, "If you wish." So, she got a pulpit made for him. When it was Friday