باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص ستو کھا کر صرف کلی کرے اور نیا وضو نہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Rinsing one's mouth (with water) after eating As-Sawiq without repaying ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
210.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے پاس بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں نہ ستو وغیرہ کا ذکر ہے اور نہ کلی وغیرہ کرنے کا بیان ہے۔ شراح بخاری نے اس کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں: (1)۔ اس حدیث کا تعلق باب سابق سے ہے، لیکن باب در باب کے اصول پر اس سے پہلے ذکر کردہ حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کر کے یہ بتایا کہ آگ سے تیار کردہ چیزوں کے استعمال پر منہ کو صاف کرنے کے لیے صرف کلی کافی ہے۔ (2)۔ حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر یہاں کاتب کی غلطی سے بے محل ہو گیا ہے، کیونکہ فربری کے نسخے میں یہ حدیث باب سابق کے تحت ذکر ہوئی ہے۔ علامہ عینی نے اس کو راجح قراردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر کتاب نقل کرنے کے لیے خوشخط کاتب کا انتخاب کیا جا تا ہے اور اکثر عمدہ خط والے کاتب جاہل ہوتے ہیں اور جہلاء سے اس قسم کی غلطی ہو سکتی ہے۔ (عمدة القاري:582/2) (3)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترک مضمضہ والی حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ذکر کر کے اس کے غیر واجب ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، یعنی کھائی ہوئی چیز چکناہٹ والی تھی اس سے کلی کرنا چاہیے تھی، لیکن بیان جواز کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا۔ (فتح الباري:408/1) اس میں شک نہیں کہ کلی کو منہ کی صفائی کے لیے رکھا گیا ہے، ستو میں اجزاء کے انتشار اور گوشت میں چکناہٹ کے اثرات دور کرنے کے لیے کلی کی جاتی ہے۔ اگر منہ کے لعاب کے ساتھ وہ اجزاء تحلیل ہو جائیں اسی طرح کچھ دیر گزرنے کے بعد گوشت کی چکناہٹ بھی ختم ہو جائے تو کلی کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، البتہ اگر ان چیزوں کے استعمال کے فوراً بعد نماز ادا کرنا ہو تو کلی کرنی ہوگی، کیونکہ مقصد منہ کی صفائی ہے تاکہ قراءت میں تکلیف نہ ہو۔ اگر نماز کے وقت منہ کسی وجہ سے خود بخود صاف ہوجائے تو کلی کی ضرورت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث میمونہ کو: ''مضمضة من السویق" کے تحت لائے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک روایت میں اختصار ہے اگرچہ اس میں کلی کا ذکر نہیں لیکن کلی کرنا مراد میں داخل ہے، کیونکہ پہلے باب میں گوشت کے استعمال کے بعد وضو لازم نہ ہونے سے ستو کے بعد بھی وضو لازم نہ ہونے پر استدلال کیا تھا اور یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب ستو کے استعمال کے بعد کلی کی جاتی ہے حالانکہ اس میں چکناہٹ نہیں ہوتی تو گوشت یا دوسری چکناہٹ والی چیزوں کے استعمال کے بعد کلی کرنا بالاولیٰ درست ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
210
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
210
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
210
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
210
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے پاس بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں نہ ستو وغیرہ کا ذکر ہے اور نہ کلی وغیرہ کرنے کا بیان ہے۔ شراح بخاری نے اس کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں: (1)۔ اس حدیث کا تعلق باب سابق سے ہے، لیکن باب در باب کے اصول پر اس سے پہلے ذکر کردہ حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کر کے یہ بتایا کہ آگ سے تیار کردہ چیزوں کے استعمال پر منہ کو صاف کرنے کے لیے صرف کلی کافی ہے۔ (2)۔ حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر یہاں کاتب کی غلطی سے بے محل ہو گیا ہے، کیونکہ فربری کے نسخے میں یہ حدیث باب سابق کے تحت ذکر ہوئی ہے۔ علامہ عینی نے اس کو راجح قراردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر کتاب نقل کرنے کے لیے خوشخط کاتب کا انتخاب کیا جا تا ہے اور اکثر عمدہ خط والے کاتب جاہل ہوتے ہیں اور جہلاء سے اس قسم کی غلطی ہو سکتی ہے۔ (عمدة القاري:582/2) (3)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترک مضمضہ والی حدیث میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ذکر کر کے اس کے غیر واجب ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، یعنی کھائی ہوئی چیز چکناہٹ والی تھی اس سے کلی کرنا چاہیے تھی، لیکن بیان جواز کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا۔ (فتح الباري:408/1) اس میں شک نہیں کہ کلی کو منہ کی صفائی کے لیے رکھا گیا ہے، ستو میں اجزاء کے انتشار اور گوشت میں چکناہٹ کے اثرات دور کرنے کے لیے کلی کی جاتی ہے۔ اگر منہ کے لعاب کے ساتھ وہ اجزاء تحلیل ہو جائیں اسی طرح کچھ دیر گزرنے کے بعد گوشت کی چکناہٹ بھی ختم ہو جائے تو کلی کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، البتہ اگر ان چیزوں کے استعمال کے فوراً بعد نماز ادا کرنا ہو تو کلی کرنی ہوگی، کیونکہ مقصد منہ کی صفائی ہے تاکہ قراءت میں تکلیف نہ ہو۔ اگر نماز کے وقت منہ کسی وجہ سے خود بخود صاف ہوجائے تو کلی کی ضرورت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث میمونہ کو: ''مضمضة من السویق" کے تحت لائے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک روایت میں اختصار ہے اگرچہ اس میں کلی کا ذکر نہیں لیکن کلی کرنا مراد میں داخل ہے، کیونکہ پہلے باب میں گوشت کے استعمال کے بعد وضو لازم نہ ہونے سے ستو کے بعد بھی وضو لازم نہ ہونے پر استدلال کیا تھا اور یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب ستو کے استعمال کے بعد کلی کی جاتی ہے حالانکہ اس میں چکناہٹ نہیں ہوتی تو گوشت یا دوسری چکناہٹ والی چیزوں کے استعمال کے بعد کلی کرنا بالاولیٰ درست ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ نے بیان کیا، کہا مجھے ابن وہب نے خبر دی، کہا مجھے عمرو نے بکیر سے، انھوں نے کریب سے، ان کو حضرت میمونہ زوجہ رسول کریم ﷺ نے بتلایا کہ آپ ﷺ نے ان کے یہاں (بکری کا) شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت امام رحمہ اللہ نے ثابت فرمایاکہ بکری کا شانہ کھانے پر آپ نے وضو نہیں فرمایا توستو کھاکر بھی وضو نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): The Prophet (ﷺ) ate (a piece of) mutton from the shoulder region and then prayed without repeating the ablution.