ترجمة الباب:
وَبِهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَشُرَيْحٌ، وَالشَّعْبِيُّ، وَطَاوُسٌ، وَعَطَاءٌ، وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ
علامہ شوکانی فرماتے ہیں : و من الادلۃ الدالۃ علی ارادۃ التفرق بالابدان قولہ فی حدیث ابن عمر المذکور ما لم یتفرقا و کانا جمیعا و کذلک قولہ و ان تفرقا بعدان تبایعا و لم یترک واحد منہما البیع فقد وجب فان فیہ البیان الواضح ان التفرق بالبدن قال الخطابی و علی ہذا وجدنا امر الناس فی عرف اللغۃ و ظاہر الکلام فاذا قیل تفرق الناس کان المفہوم منہ التمیز بالابدان قال و لو کان المراد تفرق الاقوال کما یقول اہل الرائی لخلا الحدیث من الفائدۃ و سقط معناہ الخ ( نیل الاوطار )
باب : جب تک خریدنے اور بیچنے والے جدا نہ ہوں انہیں اختیار باقی رہتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: To cancel or confirm the bargain)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( کہ بیع قائم رکھیں یا توڑ دیں ) اور عبداللہ بن عمر ؓ شریح، شعبی، طاؤس، عطاءاور ابن ابی ملیکہ سب نے یہی کہا ہے۔ تشریح : ان سب نے یہی کہا ہے کہ صر ف ایجاب و قبول یعنی عقد سے بیع لازم نہیں ہوجاتی اور جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدا نہ ہوں دونوں کو اختیار رہتا ہے کہ بیع فسخ کرڈالیں۔ سعید بن مسیب، زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، اوزاعی، ابن جریج، شافعی، مالک، احمد، اور اکثر علماءیہی کہتے ہیں۔ ابن حزم نے کہا کہ تابعین میں سے سوائے ابراہیم نخعی کے اور کوئی اس کا مخالف نہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور علماءکی مخالفت کی ہے۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ کا قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے نکالا جو اوپر نافع سے گزرا کہ ابن عمر ؓ جب کوئی چیز ایسی خریدتے جو ان کو پسند ہوتی، تو بائع سے جدا ہوجاتے۔ ترمذی نے روایت کیا بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے یعنی ابن ابی شیبہ نے روایت کیا وہاں سے چل دیتے تاکہ بیع لازم ہو جائے۔ اور شریح کے قول کو سعید بن منصور نے اور شعبی کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور طاؤس کے قوال امام شافعی نے ام میں اور عطاءاور ابن ابی ملیکہ کے اقوال کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ علامہ شوکانی مرحوم کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو خریدنے و بیچنے والے کی جسمانی جدائی پر دلیل حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میں یہ قول نبوی ہے : ”مالم یتفرقا و کان جمیعا“ یعنی ہر دو کو اس وقت تک اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں بلکہ ہر دو اکٹھے رہیں۔ اس وقت تک ان کو سودے کے بارے میں پورا اختیار حاصل ہے اور اسی طرح دوسرا ارشاد نبوی اس مقصد پر دلیل ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر دو فریق بیع کے بعد جدا ہو جائیں۔ اور معاملہ بیع کو کسی نے فسخ نہ کیا ہو اور وہ جدا ہو گئے۔ پس بیع واجب ہو گئی، یہ دلائل واضح ہیں کہ جدائی سے جسمانی جدائی مرا دہے۔ خطابی نے کہا کہ لغوی طور پر بھی لوگوں کا معاملہ ہم نے اسی طرح پایا ہے اور ظاہر کلام میں جدائی سے لوگوں کی جسمانی جدائی ہی مراد ہوتی ہے۔ اگر اہل رائے کی طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہو تو حدیث مذکور اپنے حقیقی فائدے سے خالی ہو جاتی ہے بلکہ حدیث کا کوئی معنی باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ لہذا خلاصہ یہ کہ صحیح مسلک میں ہر دو طرف سے جسمانی جدائی ہی مراد ہے یہی مسلک جمہور کا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ جن سے حدیث باب مروی ہے جلیل القدر صحابی ہیں، کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے، یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعدہر دو زمانوں میں بڑی عزت پائی۔ فتح مکہ میں اسلام لائے۔ ساٹھ سال جاہلیت میں گزارے۔ پھر ساٹھ ہی سال اسلام میں عمر پائی۔ 54ھ میں مدینہ المنورہ میں اپنے مکان ہی میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیز گار اور سخی تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ فن حدیث میں ایک جماعت ان کی شاگر دہے۔
2110.
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "بیچنےاور خریدنے والے(دونوں)کو اختیار ہے جب تک جدانہ ہوئے ہوں۔ اگر وہ سچ کہیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ہوگی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت جاتی رہے گی۔ "
تشریح:
(1) تمام محدثین کا موقف ہے کہ صرف عقد،یعنی ایجاب وقبول سے بیع لازم نہیں ہوجاتی جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدانہ ہوں کیونکہ مجلس میں رہتے ہوئے انھیں بیع پختہ یا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ اختتام مجلس کے بعد چونکہ یہ اختیار ختم ہوجاتا ہے،اس لیے ان کے لیے بیع لازم ہوجاتی ہے۔اس کے بعد خیار شرط اور خیار عیب کی بنا پر بیع فسخ ہوسکے کی بصورت دیگر فسخ نہیں ہوگی۔حضرت سعید بن مسیّب، امام زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، امام اوزاعی، ابن جریج،امام شافعی،امام مالک، امام احمد بن حنبل اور اکثر فقہاء رحمۃ اللہ علیہ یہی کہتے ہیں۔امام ابن حزم نے لکھا ہے: ابراہیم نخعی کے علاوہ تابعین میں سے کوئی اس موقف کا مخالف نہیں ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور محدثین کی مخالفت کی ہے۔اس سلسلے میں قاضی شریح کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب آدمی خریدوفروخت کے متعلق بات کرتا ہے تو بیع پختہ ہوجاتی ہے۔لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں حجاج بن ارطاۃ نامی راوی ضعیف ہے۔(2)واضح رہے کہ مجلس کی برخاستگی سے مراد جسمانی جدائی ہے۔اگر اہل رائے کے طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہوتو مذکورہ حدیث اپنے حقیقی فائدے سے خالی رہ جاتی ہے بلکہ سرے سے حدیث کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔الغرض صحیح مسلک کے مطابق ہر دوطرح سے جسمانی جدائی مراد ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے ثابت ہے۔( فتح الباری:4/416)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2049
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2110
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2110
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2110
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
اس عنوان سے خیار مجلس کا مسئلہ بیان کرنا مقصود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی خیار مجلس کے قائل(فاعل تھے جیسا کہ پہلے حدیث(2107) میں گزرا ہے۔امام ترمذی اور امام مسلم نے بھی ان کا عمل بیان کیا ہے۔( جامع الترمذی،البیوع،حدیث:1245،وصحیحمسلم،البیوع،حدیث:3853(1531))واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تفرق سے مراد تفرق ابدان ہے۔قاضی شریح کا عمل سعید بن منصور نے اور امام شعبی کا موقف ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:5/300)اسی طرح حضرت طاؤس کا اثر امام شافعی نے کتاب الام میں ذکر کیا ہے۔( الام للامام شافعی:3/5)حضرت عطاء بن ابی رباح اور ابن ابی ملیلہ کا اثر ابن ابی شیبہ نے اپنی متصل سند سے ذکر کیا ہے۔( فتح الباری:4/416)
( کہ بیع قائم رکھیں یا توڑ دیں ) اور عبداللہ بن عمر ؓ شریح، شعبی، طاؤس، عطاءاور ابن ابی ملیکہ سب نے یہی کہا ہے۔ تشریح : ان سب نے یہی کہا ہے کہ صر ف ایجاب و قبول یعنی عقد سے بیع لازم نہیں ہوجاتی اور جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدا نہ ہوں دونوں کو اختیار رہتا ہے کہ بیع فسخ کرڈالیں۔ سعید بن مسیب، زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، اوزاعی، ابن جریج، شافعی، مالک، احمد، اور اکثر علماءیہی کہتے ہیں۔ ابن حزم نے کہا کہ تابعین میں سے سوائے ابراہیم نخعی کے اور کوئی اس کا مخالف نہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور علماءکی مخالفت کی ہے۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ کا قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے نکالا جو اوپر نافع سے گزرا کہ ابن عمر ؓ جب کوئی چیز ایسی خریدتے جو ان کو پسند ہوتی، تو بائع سے جدا ہوجاتے۔ ترمذی نے روایت کیا بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے یعنی ابن ابی شیبہ نے روایت کیا وہاں سے چل دیتے تاکہ بیع لازم ہو جائے۔ اور شریح کے قول کو سعید بن منصور نے اور شعبی کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور طاؤس کے قوال امام شافعی نے ام میں اور عطاءاور ابن ابی ملیکہ کے اقوال کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ علامہ شوکانی مرحوم کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو خریدنے و بیچنے والے کی جسمانی جدائی پر دلیل حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میں یہ قول نبوی ہے : ”مالم یتفرقا و کان جمیعا“ یعنی ہر دو کو اس وقت تک اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں بلکہ ہر دو اکٹھے رہیں۔ اس وقت تک ان کو سودے کے بارے میں پورا اختیار حاصل ہے اور اسی طرح دوسرا ارشاد نبوی اس مقصد پر دلیل ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر دو فریق بیع کے بعد جدا ہو جائیں۔ اور معاملہ بیع کو کسی نے فسخ نہ کیا ہو اور وہ جدا ہو گئے۔ پس بیع واجب ہو گئی، یہ دلائل واضح ہیں کہ جدائی سے جسمانی جدائی مرا دہے۔ خطابی نے کہا کہ لغوی طور پر بھی لوگوں کا معاملہ ہم نے اسی طرح پایا ہے اور ظاہر کلام میں جدائی سے لوگوں کی جسمانی جدائی ہی مراد ہوتی ہے۔ اگر اہل رائے کی طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہو تو حدیث مذکور اپنے حقیقی فائدے سے خالی ہو جاتی ہے بلکہ حدیث کا کوئی معنی باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ لہذا خلاصہ یہ کہ صحیح مسلک میں ہر دو طرف سے جسمانی جدائی ہی مراد ہے یہی مسلک جمہور کا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ جن سے حدیث باب مروی ہے جلیل القدر صحابی ہیں، کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے، یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعدہر دو زمانوں میں بڑی عزت پائی۔ فتح مکہ میں اسلام لائے۔ ساٹھ سال جاہلیت میں گزارے۔ پھر ساٹھ ہی سال اسلام میں عمر پائی۔ 54ھ میں مدینہ المنورہ میں اپنے مکان ہی میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیز گار اور سخی تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ فن حدیث میں ایک جماعت ان کی شاگر دہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "بیچنےاور خریدنے والے(دونوں)کو اختیار ہے جب تک جدانہ ہوئے ہوں۔ اگر وہ سچ کہیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ہوگی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت جاتی رہے گی۔ "
حدیث حاشیہ:
(1) تمام محدثین کا موقف ہے کہ صرف عقد،یعنی ایجاب وقبول سے بیع لازم نہیں ہوجاتی جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدانہ ہوں کیونکہ مجلس میں رہتے ہوئے انھیں بیع پختہ یا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ اختتام مجلس کے بعد چونکہ یہ اختیار ختم ہوجاتا ہے،اس لیے ان کے لیے بیع لازم ہوجاتی ہے۔اس کے بعد خیار شرط اور خیار عیب کی بنا پر بیع فسخ ہوسکے کی بصورت دیگر فسخ نہیں ہوگی۔حضرت سعید بن مسیّب، امام زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، امام اوزاعی، ابن جریج،امام شافعی،امام مالک، امام احمد بن حنبل اور اکثر فقہاء رحمۃ اللہ علیہ یہی کہتے ہیں۔امام ابن حزم نے لکھا ہے: ابراہیم نخعی کے علاوہ تابعین میں سے کوئی اس موقف کا مخالف نہیں ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور محدثین کی مخالفت کی ہے۔اس سلسلے میں قاضی شریح کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب آدمی خریدوفروخت کے متعلق بات کرتا ہے تو بیع پختہ ہوجاتی ہے۔لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں حجاج بن ارطاۃ نامی راوی ضعیف ہے۔(2)واضح رہے کہ مجلس کی برخاستگی سے مراد جسمانی جدائی ہے۔اگر اہل رائے کے طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہوتو مذکورہ حدیث اپنے حقیقی فائدے سے خالی رہ جاتی ہے بلکہ سرے سے حدیث کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔الغرض صحیح مسلک کے مطابق ہر دوطرح سے جسمانی جدائی مراد ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے ثابت ہے۔( فتح الباری:4/416)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ قاضی شریح امام شعبی طاؤس، حضرت عطاء اور ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی کہا ہے
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو حبان بن ہلال نے خبر دی، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہ ان کو قتادہ نے خبر دی کہ مجھے صالح ابوالخلیل نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن حارث نے، کہا کہ میں نے حکیم بن حزام ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائیں انھیںاختیار باقی رہتا ہے۔ اب اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات صاف صاف بیان اور واضح کردی، تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے کوئی بات چھپائی یا جھوٹ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakim bin Hizam (RA):
The Prophet (ﷺ) said, "The buyer and the seller have the option of cancelling or confirming the bargain unless they separate, and if they spoke the truth and made clear the defects of the goods, them they would be blessed in their bargain, and if they told lies and hid some facts, their bargain would be deprived of Allah's blessings."
________