باب : اگر کسی شخص نے کچھ اسباب یا ایک جانور خریدا اور اس کو بائع ہی کے پاس رکھوا دیا اور وہ اسباب تلف ہو گیا یا جانور مر گیا اور ابھی مشتری نے اس پر قبضہ نہیں کیا تھا
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: If somebody buys some goods or (an) animal and let it with the seller, or it dies before he takes it into his possession)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عمر ؓا نے کہا، بیع کے وقت جو مال زندہ تھا اور بیع میں شریک تھا۔ وہ اگر تلف ہ وگیا تو خریدار پر پڑے گا۔ ( بائع اس کا تاوان نہ دے گا )
2138.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کوئی دن ایسانہیں گزرتاتھا کہ نبی ﷺ دن کے وقت صبح و شام کے کسی حصے میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھرنہ آتے ہوں۔ اور جب آپ کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی گئی تو آپ اچانک ظہر کے وقت تشریف لائے۔ جب حضرت ابو بکر ؓ کو یہ خبردی گئی تو انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر ہی اس وقت ہمارےہاں تشریف لائے ہیں۔ جب آپ گھر میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے۔ تو ان سے فرمایا: ’’افراد خانہ میں سے اس وقت جو آپ کے پاس ہیں انھیں الگ کردو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! صرف میری دو بیٹیاں عائشہ ؓ اور اسماء ؓ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ آیا تمھیں معلوم ہے کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل چکی ہے؟‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی میرے ساتھ رہو گے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنھیں میں نے ہجرت کے لیے تیار کر رکھا ہے، آپ ان میں سے ایک لے لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ایک قیمت کے عوض لے لی۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی چیز یا جانور خرید کر کے فروخت کرنے والے کے پاس رکھنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے اونٹنی خرید کر انھی کے پاس رہنے دی۔ایسا کرنے سے بیع مکمل ہے اور مشتری کو اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر ایسے حالات میں فروخت کردہ چیز تلف ہوجائے تو اس کا نقصان مشتری کو برداشت کرنا ہوگا۔اس میں فروخت کرنے والا ضامن نہیں ہوگا الایہ کہ وہ کسی کوتاہی کا مرتکب ہو۔ والله أعلم. (2) اجازت لے کر کسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر کسی کے گھر دوپہر کے وقت جاناجائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2077
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2138
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2138
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2138
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے یہ مقصد ہے کہ خریدی ہوئی چیز یا جانور فروخت کرنے والے کے پاس رکھنا جائز ہے۔اس کے بعد ایک مسئلے کو اس عنوان پر متفرع کیا گیا ہے کہ اگر وہ سامان ضائع ہوجائے یا جانور مر جائے تو نقصان بائع کا ہوگا یا مشتری کا؟امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر بیان کرکے اپنا رجحان واضح کردیا ہے کہ اس صورت میں نقصان خریدار کا ہوگا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر امام طحاوی اور دار قطنی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔( سنن الدارقطنی:3/53،طبع دارالمعوقہ،بیروت،ومشکل الآثار للطحاوی:11/405،وفتح الباری:4/445)
اور ابن عمر ؓا نے کہا، بیع کے وقت جو مال زندہ تھا اور بیع میں شریک تھا۔ وہ اگر تلف ہ وگیا تو خریدار پر پڑے گا۔ ( بائع اس کا تاوان نہ دے گا )
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کوئی دن ایسانہیں گزرتاتھا کہ نبی ﷺ دن کے وقت صبح و شام کے کسی حصے میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھرنہ آتے ہوں۔ اور جب آپ کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی گئی تو آپ اچانک ظہر کے وقت تشریف لائے۔ جب حضرت ابو بکر ؓ کو یہ خبردی گئی تو انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر ہی اس وقت ہمارےہاں تشریف لائے ہیں۔ جب آپ گھر میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے۔ تو ان سے فرمایا: ’’افراد خانہ میں سے اس وقت جو آپ کے پاس ہیں انھیں الگ کردو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! صرف میری دو بیٹیاں عائشہ ؓ اور اسماء ؓ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ آیا تمھیں معلوم ہے کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل چکی ہے؟‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی میرے ساتھ رہو گے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنھیں میں نے ہجرت کے لیے تیار کر رکھا ہے، آپ ان میں سے ایک لے لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ایک قیمت کے عوض لے لی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی چیز یا جانور خرید کر کے فروخت کرنے والے کے پاس رکھنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے اونٹنی خرید کر انھی کے پاس رہنے دی۔ایسا کرنے سے بیع مکمل ہے اور مشتری کو اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر ایسے حالات میں فروخت کردہ چیز تلف ہوجائے تو اس کا نقصان مشتری کو برداشت کرنا ہوگا۔اس میں فروخت کرنے والا ضامن نہیں ہوگا الایہ کہ وہ کسی کوتاہی کا مرتکب ہو۔ والله أعلم. (2) اجازت لے کر کسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر کسی کے گھر دوپہر کے وقت جاناجائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر سودا صحیح سالم اور زندہ پرہواتھا تو وہ خریدار کے مال سے ہوگا۔
وضاحت:امام بخاری کا اس عنوان سے یہ مقصد ہے کہ خریدی ہوئی چیز یا جانور کو فروخت کنندہ کے پاس رکھنا جائز ہے۔ اس کے بعد ایک مسئلے کو اس عنوان پرمتفرع کیا گیاہے کہ اگر وہ سامان ضائع ہو جائے یا جانور مرجائے تو نقصان بائع کا ہوگایا مشتری کا؟امام بخاری نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر بیان کرکے اپنا رجحان واضح کردیا ہےکہ اس صورت میں نقصان خریدار کا ہو گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے فروہ بن ابی مغراءنے بیان کیا، کہا کہ ہم کو علی بن مسہر نے خبردی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایسے دن ( مکی زندگی میں ) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم ﷺ صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر ؓ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپ ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی، تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپ ( معمول کے خلاف اچانک ) ظہر کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب حضرت ابوبکر ؓ کو آپ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم ﷺ اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ جب آپ ﷺ ابوبکر ؓ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پاس ہوں انہیں ہٹا دو۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہاں تو صرف میری یہی دو بیٹیاں ہیں یعنی عائشہ اور اسماء ؓ۔ اب آپ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے مجھے تو یہاں سے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا میرے پاس دو اونٹنیاں ہی جنہیں میں نے نکلنے ہی کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ آپ ان میں سے ایک لے لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا، قیمت کے بدلے میں، میں نے ایک اونٹنی لے لی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اونٹنی مول لے کر ان ہی کے پاس رکھوا دی، تو باب کا یہ مطلب کہ کوئی چیز خرید کرے بائع کے پاس رکھوا دینا اس سے ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Rarely did the Prophet (ﷺ) fail to visit Abu Bakr's house everyday, either in the morning or in the evening. When the permission for migration to Madinah was granted, all of a sudden the Prophet (ﷺ) came to us at noon and Abu Bakr (RA) was informed, who said, "Certainly the Prophet (ﷺ) has come for some urgent matter." The Prophet (ﷺ) said to Abu Bark, when the latter entered "Let nobody stay in your home." Abu Bakr (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There are only my two daughters (namely 'Aisha (RA) and Asma') present." The Prophet (ﷺ) said, "I feel (am informed) that I have been granted the permission for migration." Abu Bakr (RA) said, "I will accompany you, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, "You will accompany me." Abu Bakr (RA) then said "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have two she-camels I have prepared specially for migration, so I offer you one of them. The Prophet (ﷺ) said, "I have accepted it on the condition that I will pay its price."