Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Selling by auction)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاءنے کہا کہ میں نے دیکھا لوگ مال غنیمت کے نیلام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
2141.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: ’’اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟‘‘ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔
تشریح:
(1)امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نیلامی کی بیع سے منع کیا ہے۔ (کتاب الإسناد عن الزوائد البرار:483/1) بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ پیش کردہ حدیث میں نیلامی کا ذکر نہیں ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ اسے کون خریدتا ہے؟یہی نیلامی کے ثبوت کےلیے کافی ہے۔بہرحال نیلامی اگر قیمت بڑھانے کے لیے جائے تو منع ہے۔اگر خریدنے کا ارادہ ہوتو نیلامی جائز ہے۔ مذکورہ حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2080
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2141
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2141
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2141
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
نیلامی میں بڑھ چڑھ کر بولی دی جاتی ہے۔اسے عربی میں"بیع مزایدہ" کہتے ہیں۔ اگر مال لینے کی نیت ہوتو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ حضرت عطاء کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (7/180) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔( فتح الباری:4/448)
اور عطاءنے کہا کہ میں نے دیکھا لوگ مال غنیمت کے نیلام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: ’’اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟‘‘ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔
حدیث حاشیہ:
(1)امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نیلامی کی بیع سے منع کیا ہے۔ (کتاب الإسناد عن الزوائد البرار:483/1) بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ پیش کردہ حدیث میں نیلامی کا ذکر نہیں ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ اسے کون خریدتا ہے؟یہی نیلامی کے ثبوت کےلیے کافی ہے۔بہرحال نیلامی اگر قیمت بڑھانے کے لیے جائے تو منع ہے۔اگر خریدنے کا ارادہ ہوتو نیلامی جائز ہے۔ مذکورہ حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا وہ مال غنیمت نیلام کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حسین مکتب نے خبر دی، انہیں عطاءبن ابی رباح نے اور انہیں جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنے مرنے کے بعد کی شرط کے ساتھ آزاد کیا۔ لیکن اتفاق سے وہ شخص مفلس ہو گیا، تو نبی کریم ﷺ نے اس کے غلام کو لے کر فرمایا کہ اسے مجھ سے کون خریدے گا۔ اس پر نعیم بن عبداللہ ؓ نے اسے اتنی اتنی قیمت پر خرید لیا اور آپ نے غلام ان کے حوالہ کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
نعیم بن عبداللہ ؓ نے آٹھ سو درہم کا لیا، جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اس کو کون خریدتا ہے، تو یہ نیلام ہی ہوا۔ اور اسماعیلی کا اعتراض دفع ہو گیا کہ حدیث سے نیلام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے مول بڑھانا شروع کیا، اور مدبر کی بیع کا جواز نکلا، امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی قول ہے، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک مدبر کی بیع درست نہیں ہے۔ تفصیل آرہی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں : لما ان تقدم في الباب قبله النهي عن السوم أراد أن یبین موضع التحریمة منه و قد أوضحته في الباب الذي قبله و ورد في البیع فیمن یزید حدیث أنس أنه صلی اللہ علیه وسلم باع حلسا و قدحا و قال من یشتري هذا الحلس و القدح فقال رجل أخذتهما بدرهم فقال من یزید علی درهم فأعطاہ رجل درهمین فباعهما منه أخرجه أحمد و أصحاب السنن مطولا و مختصراً و اللفظ للترمذي و قال حسن و کان المصنف أشار بالترجمة إلی تضعیف ما أخرجه البزار من حدیث سلیمان بن وهب سمعت النبي صلی اللہ علیه وسلم ینهی عن بیع المزایدة فإن في إسنادہ ابن لهیعة وهو ضعیف۔ ( فتح ) چونکہ پچھلے باب میں بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے نہی گزر چکی ہے لہٰذا مصنف نے چاہا کہ حرمت کی وضاحت کی جائے اور میں اس سے پہلے باب میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔ یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے نیلام کا بیان شروع فرمایا اوراس کا جواز ثابت کیا۔ اور اس بیع کے بارے میں انس ؓ سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک پرانا ٹاٹ اور ایک پیالہ نیلام فرمایا۔ اور ایک آدمی نے ان کی بولی ایک درہم لگائی۔ آپ ﷺ کے دوبارہ اعلان پر دوسرے آدمی نے دو درہموں کو بولی لگادی۔ اور آپ ﷺ نے ہر دو چیزیں اس کو دے دیں۔ حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ مسند بزار میں سفیان بن وہب کی روایت سے جو حدیث موجود ہے جس میں نیلام سے ممانعت وارد ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہے۔ حضرت عطاءبن ابی رباح مشہور ترین تابعی ہیں۔ کنیت ابومحمد ہے جلیل القدر فقیہ ہیں۔ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ امام اوزاعی ؒ کا قول ہے کہ ان کی وفات کے وقت ہر شخص کی زبان پر ان کا ذکر خیر تھا۔ اور سب لوگ ان سے خوش تھے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے علم کے خزانوں کا مالک حضرت عطاءبن ابی رباحؒ کو بنایا جو حبشی تھے۔ علم اللہ کی دین ہے جسے چاہے وہ دے دے۔ سلمہ بن کہیل نے کہا، عطاء، طاؤس، مجاہد ؒ وہ بزرگ ہیں جن کے علم کی غرض و غایت صرف خدا کی ذات تھی۔ 88 سال کی عمر میں 115ھ میں وفات پائی۔ رحمه اللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): A man decided that a slave of his would be manumitted after his death and later on he was in need of money, so the Prophet (ﷺ) took the slave and said, "Who will buy this slave from me?" Nu'aim bin 'Abdullah bought him for such and such price and the Prophet (ﷺ) gave him the slave. ________