باب : اونٹ یا بکری یا گائے کے تھن میں دودھ جمع کر رکھنا بائع کو منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The seller is not allowed to keep animal unmilked for a long time)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسی طرح ہر جاندار کے تھن میں (تاکہ دیکھنے والا زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اسے زیادہ قیمت پر خریدے) اور مصراۃ وہ جانور ہے کہ جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو، اس میں جمع کرنے کے لءے اور کءی دن تک اسے نکالا نہ گیا ہو، لفظ تصریہ اصل میں پانی روکنے کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ اسی سے یہ استعمال ہے صریت الماء (یعنی میں نے پانی کو روک رکھا)۔
2148.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ اور جس کسی نے دودھ بستہ جانور خریدا تو اسے دوہنے کے بعد خریدار کو دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اس کو واپس کر دے اور صاع بھر کھجوریں ساتھ دے۔‘‘ ابو صالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’صاع بھر کھجوروں کا۔‘‘ کچھ راوی حضرت ابن سیرین ؓ سے صاع بھر غلے کا ذکر کرتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اور بعض نے ابن سیرین سے ’’کھجوروں کا ایک صاع‘‘ ذکر کیا ہے اورتین دن تک اختیار کا ذکر نہیں کیا، البتہ اکثر راویوں نے کھجوروں کا ذکر کیا ہے۔
تشریح:
(1) یہ مسئلہ "مصراۃ" کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں نے جب کوئی جانور فروخت کرنا ہوتا تو وہ ایک دو دن تک اس کا دودھ نہیں دوہتے تھے تاکہ دودھ اس کے تھنوں میں جمع ہوکر زیادہ معلوم ہو لیکن جب خریدار اپنے گھر جاکر اس کیفیت کو ملاحظہ کرتا تو پریشان ہوجاتا۔اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اگر کوئی گائے،بکری یا اونٹنی اس طرح دودھ روک کر فروخت کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے چاہے تو اسی پرراضی رہے چاہے اسے واپس کردے اور ایک صاع کھجور ساتھ دے تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے، لیکن تقلید وجمود کی کرشمہ سازی ملاحظہ ہوکہ صحیح احادیث کو رد کرنے کے لیے اصول سازی کی گئی، چنانچی ایک اصول بنایا گیا کہ حدیث اس وقت قبول نہ کی جائے جب اس کا راوی غیر فقیہ ہو اور وہ ہر طرح سے قیاس کے خلاف ہو۔مذکورہ حدیث صحیح بخاری کو بھی اس خود ساختہ اصول کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ان کے ہاں حضرت ابو ہریرہ ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں،غیر فقیہ ہیں اور یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے ۔اسی طرح حضرت انس ؓ بھی ان کے ہاں غیر فقیہ ہیں اور ان کی بیان کردہ صحیح بخاری کی ایک روایت کو رد کردیا گیا۔حدیث میں ہے کہ کچھ لوگ مدینہ آئے لیکن انھیں وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور ان کے پیٹ پھول گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی ۔ (صحیح البخاري، حدیث:238) ان حضرات کے اس اصول میں علم واجتہاد سے بہرہ ور بہت سے صحابۂ کرام ؓ کے ساتھ بے ادبی کا پہلو تو پایا ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ثبوت امام ابو حنیفہ ؓ سے نہیں ملتا بلکہ یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے جس پر بہت سے متاخرین نے ان کی متابعت کرلی ہے۔تفصیل کے لیے اصول الشاشی میں بحث السنة کے حواشی پڑھ لیے جائیں۔ علامہ کرخی نے اس اصول کے خلاف آواز اٹھائی کہ راوی کی فقہ کا روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ روایت کی صحت کا دارومدار راوی کے عادل اور ضابط ہونے پر ہے۔ان حضرات نے قیاس کو حضرت ابو ہریرہ ؓکی بیان کردہ روایت پر ترجیح دے کر خود کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ حدیث کا تمام صحابۂ کرام ؓ سے زیادہ علم رکھنے والے بلکہ راوئ اسلام کے لقب سے مشہور ہیں،پھر انھوں نے تو رسول اللہ ﷺ سے ایک حکم نقل کیاجو اپنی جگہ واجب تعمیل ہے۔ والله المستعان. (2) امام بخاری ؒ کی بیان کردہ متابعات کو مسلم وغیرہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3831 (1524)، والمعجم الأوسط للطبراني:249/7، طبع دار الحرمین، قاھرء) بعض میں کھجور کے بجائے " طعام" کے الفاظ ہیں۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3832(1524)) امام بخارى ؒ نے "طعام" کی روایات کو مرجوح قرار دیا ہے۔(فتح الباري:450/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2087
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2148
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2148
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2148
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع کیا ہے۔اس کی ایک صورت بيع المصراة ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بیع کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔مصراة سے مراد وہ جانور ہے جس کے تھنوں میں دودھ روک لیا گیا ہو تاکہ خریدار اسے زیادہ دودھ دینے والا جانور خیال کرکے زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو۔اگر کسی نے جانور کے بچے یا اپنے اہل وعیال کو دودھ پلانے کے لیے یہ عمل کیا تو منع نہیں۔صحیح بخاری کی جس روایت میں ہے :" جانور کا دودھ مت روکو۔"( صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2727) تو اس مطلق روایت کو ان روایات پر محمول کیا جائے گا جن میں"بیچنے کی غرض سے روکنے"کی قید ذکر ہوئی ہے،یعنی جانور فروخت کرنے کی غرض سے اس کا دودھ روکنا تاکہ خریدنے والا یہ سمجھے کہ بہت زیادہ دودھ والا جانور ہے،منع ہے۔سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اونٹنیوں اور بکریوں کا دودھ خریدوفروخت کے لیے ان کے تھنوں میں مت جمع کرو۔( سنن النسائی،البیوع،حدیث:4492)ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب بکری یا کوئی دودھ دینے والا جانور فروخت کرو تو اس کا دودھ تھنوں میں مت روکو۔( سنن النسائی،البیوع،حدیث:4491) باقی بعض نے کہا ہے کہ جانور وں کا دودھ روکنا مطلقاًمنع ہے کیونکہ اس سے جانوروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ کسی خاص ضرورت کے پیش نظر جبکہ کسی کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو جانور کا دودھ روکنا جائز ہے،تاہم بلا وجہ جانور کو ، دودھ روک کر،تکلیف اور اذیت دینا درست نہیں۔حدیث میں ہے :اگر کوئی اس طرح کا دودھ روکا ہوا جانور خرید لے تو اسے اختیار ہے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے لیکن واپس کرنے کی صورت میں (جھگڑا ختم کرنے کے لیے) اسے کھجوروں کا ایک صاع واپس کرنا ہوگا۔( صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2148) اس میں دودھ کی کمی بیشی کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔
اسی طرح ہر جاندار کے تھن میں (تاکہ دیکھنے والا زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اسے زیادہ قیمت پر خریدے) اور مصراۃ وہ جانور ہے کہ جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو، اس میں جمع کرنے کے لءے اور کءی دن تک اسے نکالا نہ گیا ہو، لفظ تصریہ اصل میں پانی روکنے کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ اسی سے یہ استعمال ہے صریت الماء (یعنی میں نے پانی کو روک رکھا)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ’’اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ اور جس کسی نے دودھ بستہ جانور خریدا تو اسے دوہنے کے بعد خریدار کو دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اس کو واپس کر دے اور صاع بھر کھجوریں ساتھ دے۔‘‘ ابو صالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’صاع بھر کھجوروں کا۔‘‘ کچھ راوی حضرت ابن سیرین ؓ سے صاع بھر غلے کا ذکر کرتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اور بعض نے ابن سیرین سے ’’کھجوروں کا ایک صاع‘‘ ذکر کیا ہے اورتین دن تک اختیار کا ذکر نہیں کیا، البتہ اکثر راویوں نے کھجوروں کا ذکر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ مسئلہ "مصراۃ" کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں نے جب کوئی جانور فروخت کرنا ہوتا تو وہ ایک دو دن تک اس کا دودھ نہیں دوہتے تھے تاکہ دودھ اس کے تھنوں میں جمع ہوکر زیادہ معلوم ہو لیکن جب خریدار اپنے گھر جاکر اس کیفیت کو ملاحظہ کرتا تو پریشان ہوجاتا۔اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اگر کوئی گائے،بکری یا اونٹنی اس طرح دودھ روک کر فروخت کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے چاہے تو اسی پرراضی رہے چاہے اسے واپس کردے اور ایک صاع کھجور ساتھ دے تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے، لیکن تقلید وجمود کی کرشمہ سازی ملاحظہ ہوکہ صحیح احادیث کو رد کرنے کے لیے اصول سازی کی گئی، چنانچی ایک اصول بنایا گیا کہ حدیث اس وقت قبول نہ کی جائے جب اس کا راوی غیر فقیہ ہو اور وہ ہر طرح سے قیاس کے خلاف ہو۔مذکورہ حدیث صحیح بخاری کو بھی اس خود ساختہ اصول کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ان کے ہاں حضرت ابو ہریرہ ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں،غیر فقیہ ہیں اور یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے ۔اسی طرح حضرت انس ؓ بھی ان کے ہاں غیر فقیہ ہیں اور ان کی بیان کردہ صحیح بخاری کی ایک روایت کو رد کردیا گیا۔حدیث میں ہے کہ کچھ لوگ مدینہ آئے لیکن انھیں وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور ان کے پیٹ پھول گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی ۔ (صحیح البخاري، حدیث:238) ان حضرات کے اس اصول میں علم واجتہاد سے بہرہ ور بہت سے صحابۂ کرام ؓ کے ساتھ بے ادبی کا پہلو تو پایا ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ثبوت امام ابو حنیفہ ؓ سے نہیں ملتا بلکہ یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے جس پر بہت سے متاخرین نے ان کی متابعت کرلی ہے۔تفصیل کے لیے اصول الشاشی میں بحث السنة کے حواشی پڑھ لیے جائیں۔ علامہ کرخی نے اس اصول کے خلاف آواز اٹھائی کہ راوی کی فقہ کا روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ روایت کی صحت کا دارومدار راوی کے عادل اور ضابط ہونے پر ہے۔ان حضرات نے قیاس کو حضرت ابو ہریرہ ؓکی بیان کردہ روایت پر ترجیح دے کر خود کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ حدیث کا تمام صحابۂ کرام ؓ سے زیادہ علم رکھنے والے بلکہ راوئ اسلام کے لقب سے مشہور ہیں،پھر انھوں نے تو رسول اللہ ﷺ سے ایک حکم نقل کیاجو اپنی جگہ واجب تعمیل ہے۔ والله المستعان. (2) امام بخاری ؒ کی بیان کردہ متابعات کو مسلم وغیرہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3831 (1524)، والمعجم الأوسط للطبراني:249/7، طبع دار الحرمین، قاھرء) بعض میں کھجور کے بجائے " طعام" کے الفاظ ہیں۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3832(1524)) امام بخارى ؒ نے "طعام" کی روایات کو مرجوح قرار دیا ہے۔(فتح الباري:450/4)
ترجمۃ الباب:
مصراةوہ جانور ہے جس کا دودھ نہ نکالا گیا ہو اور اس کے تھنوں میں جمع کیا گیا ہو اور کئی دنوں تک اسے نہ دوہا جائے۔ تصريةکے اصل معنی پانی کو روک لینا ہیں۔ عربی میںصريت الماء کا محاورہ اس وقت بولاجاتا ہے جب پانی کو روک لیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( بیچنے کے لیے ) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے ( دھوکہ میں آکر ) کوئی ایسا جانور خریدلیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے، اور چاہے تو واپس کردے۔ اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدل دے دے۔ ابوصالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار سے بواسطہ ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت ایک صاع کھجور ہی کی ہے۔ بعض راویوں نے ابن سیرین سے ایک صاع کھجور کی روایت کی ہے اور یہ کہ خریدار کو ( صورت مذکورہ میں ) تین دن کا اختیار ہوگا۔ اگرچہ بعض دوسرے راویوں نے ابن سیرین ہی سے ایک صاع کھجور کی بھی روایت کی ہے، لیکن تین دن کے اختیار کا ذکر نہیں کیا اور ( تاوان میں ) کھجور دینے کی روایات ہی زیادہ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
لونڈی ہو یا گدھی ان کے دودھ کے بدل ایک صاع نہ دیا جائے گا۔ اور حنابلہ نے گدھی کے دودھ کے بدلے صاع دینا لازم نہیں رکھا۔ لیکن لونڈی میں انہوں نے اختلاف کیا ہے اور جمہور اہل علم، صحابہ اور تابعین اور مجتہدین نے باب کی حدیث پر عمل کیا ہے کہ ایسی صورت میں مشتری چاہے تو وہ جانور پھیر دے اور ایک صاع کھجور دودھ کا بدل دے دے۔ خواہ دودھ بہت ہو یا کم اور حنیفہ نے قیاس پر عمل کرکے اس صحیح حدیث کا خلاف کیا ہے اور کہتے کیا ہیں کہ ابوہریرہ ؓ فقیہ نہ تھے۔ اس لیے ان کی روایت قیاس کے خلاف قبول نہیں ہو سکتی۔ اور یہ کھلی دھینگا مشتی ہے۔ ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے حکم نقل فرمایا ہے اور لطف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے جن کو حنفی فقہ اور اجتہاد میں امام جانتے ہیں، ان سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ اور شاید حنفیہ کو الزام دینے کے لیے امام بخاری ؒ نے اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت نقل کیا ہے اور خود حنفیہ نے بہت سے مقاموں میں حدیث سے قیاس جلی کو ترک کیا ہے، جیسے وضو بالنبیذ اور قہقہ میں پھر یہاں کیوں ترک نہیں کرتے۔ اور امام ابن قیم نے اس مسئلہ کے ماله و ما علیه پر پوری پوری روشنی ڈالتے ہوئے حنفیہ پر کافی رد کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Don't keep camels and sheep unmilked for a long time, for whoever buys such an animal has the option to milk it and then either to keep it or return it to the owner along with one Sa of dates." Some narrated from Ibn Sirin (that the Prophet (ﷺ) had said), "One Sa of wheat, and he has the option for three days." And some narrated from Ibn Sirin, " ... a Sa of dates," not mentioning the option for three days. But a Sa of dates is mentioned in most narrations. ________