قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابٌ: لاَ يَشْتَرِي حَاضِرٌ لِبَادٍ بِالسَّمْسَرَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: وَكَرِهَهُ ابْنُ سِيرِينَ، وَإِبْرَاهِيمُ لِلْبَائِعِ وَالمُشْتَرِي وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: «إِنَّ العَرَبَ تَقُولُ بِعْ لِي ثَوْبًا، وَهِيَ تَعْنِي الشِّرَاءَ»

2161 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذٌ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ

صحیح بخاری:

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب : اس بیان میں کہ کوئی بستی والا باہر والے کے لیے دلالی کرکے مول نہ لے

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

اور ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے لیے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ عرب کہتے ہیں بع لی ثوبا یعنی کپڑا خرید لے۔ مطلب یہ ہے کہ حدیث میں جو لایبیع حاضر لباد ہے، یہ بیع اور شراءدونوں کو شامل ہے۔ جیسے شراءباع کے معنی میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے و شروہ بثمن بخس دراہم یعنی باعوا ایسا ہی باع بھی شری کے معنوں میں آتا ہے اور دونوں صورتیں منع ہیں۔

2161.   حضرت انس بن مالک  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔