Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: To buy foodstuff on credit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2200.
حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت غلہ ادھار پر خریدا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے پاس زائد غلہ نہ ہو یا اس بنا پر یہودی سے معاملہ کیا ہوکہ کوئی مسلمان رواداری کے طور پر اس کی قیمت وصول نہ کرتا، اس لیے آپ نے انھیں زحمت دینا گوارا نہ فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں ہے:آپ نے اس یہودی سے جو لیے تھے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اپنی گروی رکھی ہوئی زرہ قیمت دے کر واپس نہ لے سکے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اسے قیمت ادا کر کے زرہ واپس لی۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے جبکہ صاحب تدبر حدیث نے اسے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور کا قرار دیا ہے۔ یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم؟ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔ (تدبر حدیث:485/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2200
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2200
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2200
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت غلہ ادھار پر خریدا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے پاس زائد غلہ نہ ہو یا اس بنا پر یہودی سے معاملہ کیا ہوکہ کوئی مسلمان رواداری کے طور پر اس کی قیمت وصول نہ کرتا، اس لیے آپ نے انھیں زحمت دینا گوارا نہ فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں ہے:آپ نے اس یہودی سے جو لیے تھے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اپنی گروی رکھی ہوئی زرہ قیمت دے کر واپس نہ لے سکے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اسے قیمت ادا کر کے زرہ واپس لی۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے جبکہ صاحب تدبر حدیث نے اسے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور کا قرار دیا ہے۔ یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم؟ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔ (تدبر حدیث:485/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے ابراہیم کے سامنے قرض میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ہم سے اسود کے واسطہ سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے یہاں گروی رکھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ غلہ بوقت ضرورت ادھار بھی خریدا جاسکتا ہے۔ اور ضرورت لاحق ہو تو اس قرض کے سلسلہ میں اپنی کسی بھی چیز کو گروی رکھنا بھی جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس قسم کے دنیاوی معاملات غیر مسلموں سے بھی کئے جاسکتے ہیں۔ خود نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار حاصل فرمایا۔ اور آپ پر خوب واضح تھا کہ یہودیوں کے ہاں ہر قسم کے معاملات ہوتے ہیں۔ ان حالات میں بھی آپ نے ان سے غلہ ادھار لیا اور ان کے اطمینان مزید کے لیے اپنی زرہ مبارک کو اس یہودی کے ہاں گروی رکھ دیا۔ سند میں مذکورہ راوی حضرت اعمش ؒ سلیمان بن مہران کاہلی اسدی ہیں۔ بنوکاہل کے آزاد کردہ ہیں۔ بنوکاہل ایک شاخ بنواسد خزیمہ کی ہے۔ یہ 60ھ میں رے میں پیدا ہوئے اور کسی نے ان کو اٹھا کر کوفہ میں لاکر فروخت کردیا تو بنی کاہل کے کسی بزرگ نے خرید کر ان کو آزاد کر دیا۔ علم حدیث و قرات کے مشہور ائمہ میں سے ہیں اہل کوفہ کی روایات کا زیادہ مدار ان پر ہی ہے۔ 148ھ میں وفات پائی۔ رحمة اللہ علیه۔ نیز حضرت اسود بھی مشہور تابعی ہیں جو ابن ہلال محاربی سے مشہور ہیں۔ عمرو بن معاذ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ اور ان سے زہری نے روایت کی ہے۔ 84ھ میں وفات پائی۔ رحمة اللہ علیه رحمة واسعة۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) bought some foodstuff from a Jew on credit and mortgaged his armor to him.