باب : حربی کافر سے غلام لونڈی خریدنا اور اس کا آزاد کرنا اور ہبہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The purchase of a slave from the enemy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺ نے سلمان فارسی ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “ تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی ) کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسرؓ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر ؓ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔ حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرتﷺ جب دار ارقم میں تھے تو عمارؓ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ حضرت بلال ؓ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول ﷺ ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔
2220.
حضرت حکیم بن حزام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جنھیں میں زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلے میں کیاکرتا تھا۔ کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملےگا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کچھ بھلائی تم گزشتہ دور میں کرچکے ہو اسے باقی رکھتے ہوئے تم اسلام لائے ہو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے کفارومشرکین کے حقوق کے متعلق مزید یہ بیان کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اگر کسی نے نیکی کے کام کیے تھے پھر وہ اسلام لے آیا تو اسے ان نیکیوں پر بھی اجر ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم ان نیکیوں کو ختم کرکے نہیں بلکہ انھیں باقی رکھ کر اسلام لائے ہو اور اس پر تمھیں اجر ملے گا۔ اس کے برعکس جو باطل چیزیں ہیں اسلام لانے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسلام ان سب کو مٹا دے گا۔‘‘(2) عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں طور ہے کہ مشرک کا صدقہ کرنا، اپنے اقارب سے حسن سلوک کرنا اور غلام آزاد کرنا تب ہی درست ہوسکتا ہے کہ ان میں اس کی ملکیت صحیح ہو۔ مشرک کا حق ملکیت تسلیم شدہ ہے کیونکہ غلام آزاد کرنے کی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ اس کی ملکیت کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ (فتح الباري:512/4) (3) اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم نے گزشتہ دور میں جو بھلائیاں کی ہیں انھی کی بدولت تمھیں قبول اسلام کی توفیق ملی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2154
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2220
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2220
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2220
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کافر،خواہ حربی ہی کیوں نہ ہو اس کا بھی حق ملکیت تسلیم کیا جائے گا۔وہ لینے کے لیے قانون کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔اسی طرح حربی سے غلام خریدنا اور اس کا آزاد یا ہبہ کرنا معتبر ہوگا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ آزاد تھے۔ان پر ظلم کیا گیا اور انھیں پکڑ کر فروخت کردیا گیا۔اس طرح وہ غلام بن گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے آقاؤں کے کچھ رقم دے آزادی حاصل کرنے کا معاملہ طے کرلیں،پھر اس رقم کا بندوبست کیا جائے۔یہ واقعہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔( مسند احمد:5/442) حضرت عمار بن یاسر،حضرت صہیب رومی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم کابھی یہی حال تھا۔یہ سب آزاد تھے لیکن کافروں نے انھیں قید کرکے غلام بنا رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت رائج قانون کے تقاضوں کو پورا کیا اور ان کے حق ملکیت کو تسلیم کیا۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں کفار ومشرکین کے ملک یمین کو تسلیم کیا گیا ہے۔جب کفار کی ملک یمین صحیح ہے اور قرآن کریم نے اسے تسلیم کیا ہے تو ان سے خریدوفروخت کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔اس کے علاوہ حربی کافر کا اپنا غلام آزاد کرنا یا کسی کو ہبہ کرنا بھی صحیح ہے۔ مکاتبت یہ ہے کہ غلام اپنے آقا کو کچھ رقم قسطوں کی شکل میں ادا کرنا قبول کرلے۔طے شدہ کل رقم ادا کرنے کے بعد غلام خود بخود آزاد ہوجاتا ہے۔اس طرح غلام کو خرید کر اسے آزاد کرنے کی بہت فضیلت ہے۔بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کفار ومشرکین بحیثیت انسان اپنا حق ملکیت رکھتے ہیں،ان کی خریدوفروخت کا اعتبار ہوگا۔
اور نبی کریمﷺ نے سلمان فارسی ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “ تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی ) کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسرؓ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر ؓ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔ حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرتﷺ جب دار ارقم میں تھے تو عمارؓ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ حضرت بلال ؓ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول ﷺ ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جنھیں میں زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلے میں کیاکرتا تھا۔ کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملےگا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کچھ بھلائی تم گزشتہ دور میں کرچکے ہو اسے باقی رکھتے ہوئے تم اسلام لائے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے کفارومشرکین کے حقوق کے متعلق مزید یہ بیان کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اگر کسی نے نیکی کے کام کیے تھے پھر وہ اسلام لے آیا تو اسے ان نیکیوں پر بھی اجر ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم ان نیکیوں کو ختم کرکے نہیں بلکہ انھیں باقی رکھ کر اسلام لائے ہو اور اس پر تمھیں اجر ملے گا۔ اس کے برعکس جو باطل چیزیں ہیں اسلام لانے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسلام ان سب کو مٹا دے گا۔‘‘(2) عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں طور ہے کہ مشرک کا صدقہ کرنا، اپنے اقارب سے حسن سلوک کرنا اور غلام آزاد کرنا تب ہی درست ہوسکتا ہے کہ ان میں اس کی ملکیت صحیح ہو۔ مشرک کا حق ملکیت تسلیم شدہ ہے کیونکہ غلام آزاد کرنے کی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ اس کی ملکیت کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ (فتح الباري:512/4) (3) اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم نے گزشتہ دور میں جو بھلائیاں کی ہیں انھی کی بدولت تمھیں قبول اسلام کی توفیق ملی ہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے فرمایا: "تم (اپنے مکان سے) مکاتبت کرلو"حالانکہ آپ آزاد تھے لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا اور پکڑ کر انھیں بیچ دیاتھا۔ حضرت عمار، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین یہ سب قید کرلیے گئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ نے رزق کے معاملے میں تمھیں ایک کو دوسرے پر برتری دی ہے۔ پھرجن لوگوں کو برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو دینے کےلیے تیار نہیں(کہ آقا اور غلام سب برابر ہوجائیں) تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہی رہیں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی انہیں حکیم بن حزام ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ ﷺ کا کیا حکم ہے، جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلہ میں کیا کرتا تھا کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملے گا؟ حضرت حکیم بن حزام ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جتنی نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو ان سب کے ساتھ اسلام لائے ہو۔
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ تمام نیکیاں قائم رہیں گی اور ضرور ان کا ثواب ملے گا۔ آخر میں یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری ؒ نے غالباً یہ اشارہ کیا ہے کہ جائز حدود میں اسلام لانے سے پہلے کے معاملات لین دین اسلام قبول کرنے کے بعد بھی قائم رہیں گے اور ان میں کوئی رد و بدل نہ ہو گا۔ یا فریقین میں سے کوئی ایک فریق مسلمان ہوگیا ہے اور جائز حدود میں اس کا لین دین کا کوئی سلسلہ ہے جس کا تعلق جاہلیت سے ہے تو ہ اپنے دستور پر اسے چالو رکھ سکے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA): Hakim bin Hizam said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I used to do good deeds in the Pre-lslamic period of Ignorance, e.g., keeping good relations with my kith and kin, manumitting slaves and giving alms. Shall I receive a reward for all that?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "You embraced Islam with all the good deeds which you did in the past." ________