باب : غلام کو غلام کے بدلے اورکسی جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنا
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The sale of a slave (for a slave) and an animal for an animal on credit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓنے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج ؓنے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔ تشریح : ربذہ ایک مقام مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ بیع کے وقت یہ شرط ہوئی کہ وہ اونٹنی بائع کے ذمہ اور اس کی حفاظت میں رہے گی۔ اور بائع ربذہ پہنچ کر اسے مشتری کے حوالے کردے گا۔ حضرت ابن عباس کے اثر کو امام شافعی نے وصل کیا ہے۔ طاؤس کے طریق سے یہ معلوم ہوا کہ جانور سے جانور کے بدلنے میں کمی اور بیشی اسی طرح ادھار بھی جائز ہے۔ اور یہ سود نہیں ہے گو ایک ہی جنس کا دونوں طرف ہو اور شافعیہ بلکہ جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے منع کیا ہے۔ ان کی دلیل سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے اصحاب سنن نے نکالا ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر جنس مختلف ہو تو جائز ہے۔
2228.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ (غزوہ خیبر کے وقت) قیدیوں میں حضرت صفیہ ؓ بھی تھیں۔ وہ وحیہ کلبی کے حصے میں آئیں پھر نبی کریم ﷺ کو مل گئیں۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت انتہائی مختصر ہے۔ دوسری روایات میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو دحیہ کلبی ؓ سے سات غلاموں کے عوض خریدا۔ (مسند أحمد:123/3) اسی طرح حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خرید کیا۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4113(1602)) (2) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا،اونٹ ختم ہوگئے تو آپ نے انھیں صدقے کے اونٹ آنے پر ادھار اونٹ لینے کا حکم فرمایا۔حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں ایک اونٹ صدقے کے دواونٹوں کے بدلے میں لیتا تھا، یعنی دو اونٹوں کی ادائیگی صدقے کے اونٹ آنے پر ہوگی۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3357) ایک روایت ميں ان روایات کے معارض ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار کی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:288/5) محدثین کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس روایت میں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے اور ایسا کرنا کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ (معالم السنن:29/5) ہمارے رجحان کے مطابق حیوان کی حیوان کے عوض خریدوفروخت ادھار اور کمی بیشی کے ساتھ مطلق طور پر جائز ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2162
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2228
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2228
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2228
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ اجناس کی باہمی خریدوفروخت کے متعلق دواصول ہیں:٭ اگر ایک جنس کا اس کے ساتھ تبادلہ مقصود ہوتو دو چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔(ر) دونوں برابر، برابر ہوں۔(ب) سودا نقد بنقد ہو۔٭اگر دو اجناس کا باہمی تبادلہ کرنا ہوتو ایک چیز کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ سودا نقد بنقد ہو۔البتہ اس میں کمی بیشی جائز ہے۔اس عنوان میں غلام اور حیوانات کے متعلق اجازت دی گئی ہے کہ ان کے تبادلے میں کمی بیشی اور ادھار دونوں کی رعایت ہے۔ایک اعلیٰ نسل کا اونٹ دویا اس سے زائد اونٹوں کے بدلے نقدیا ادھار فروخت کیا جاسکتا ہے کیونکہ حیوانات میں سود نہیں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے جواز کے لیے پانچ آثار پیش کیے ہیں۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔( الموطا للامام مالک:2/184) اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر امام شافعی رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔( الام للامام الشافعی:3/118) حضرت رافع بن خدیج کی خریدوفروخت کا معاملہ مصنف عبدالرزاق(8/22) میں متصل سند سے مذکور ہے۔حضرت سعید بن مسیّب کا قول مصنف عبدالرزاق : (8/20) میں بیان ہوا ہے اور ابن سیرین کا اثر بھی مصنف عبدالرزاق (8/23) میں موجود ہے۔( فتح الباری:4/530)
اور عبداللہ بن عمر ؓنے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج ؓنے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔ تشریح : ربذہ ایک مقام مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ بیع کے وقت یہ شرط ہوئی کہ وہ اونٹنی بائع کے ذمہ اور اس کی حفاظت میں رہے گی۔ اور بائع ربذہ پہنچ کر اسے مشتری کے حوالے کردے گا۔ حضرت ابن عباس کے اثر کو امام شافعی نے وصل کیا ہے۔ طاؤس کے طریق سے یہ معلوم ہوا کہ جانور سے جانور کے بدلنے میں کمی اور بیشی اسی طرح ادھار بھی جائز ہے۔ اور یہ سود نہیں ہے گو ایک ہی جنس کا دونوں طرف ہو اور شافعیہ بلکہ جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے منع کیا ہے۔ ان کی دلیل سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے اصحاب سنن نے نکالا ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر جنس مختلف ہو تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ (غزوہ خیبر کے وقت) قیدیوں میں حضرت صفیہ ؓ بھی تھیں۔ وہ وحیہ کلبی کے حصے میں آئیں پھر نبی کریم ﷺ کو مل گئیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت انتہائی مختصر ہے۔ دوسری روایات میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو دحیہ کلبی ؓ سے سات غلاموں کے عوض خریدا۔ (مسند أحمد:123/3) اسی طرح حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خرید کیا۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4113(1602)) (2) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا،اونٹ ختم ہوگئے تو آپ نے انھیں صدقے کے اونٹ آنے پر ادھار اونٹ لینے کا حکم فرمایا۔حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں ایک اونٹ صدقے کے دواونٹوں کے بدلے میں لیتا تھا، یعنی دو اونٹوں کی ادائیگی صدقے کے اونٹ آنے پر ہوگی۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3357) ایک روایت ميں ان روایات کے معارض ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار کی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:288/5) محدثین کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس روایت میں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے اور ایسا کرنا کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ (معالم السنن:29/5) ہمارے رجحان کے مطابق حیوان کی حیوان کے عوض خریدوفروخت ادھار اور کمی بیشی کے ساتھ مطلق طور پر جائز ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک اونٹنی چار اونٹنیوں کے عوض خریدی اور یہ ضمانت لی کہ ان کا مالک انھیں ربذہ پہنچا دےگا۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: کبھی ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتاہے۔ حضرت رافع بن خدیج ؓنے ایک اونٹ دو اونٹوں کے عوض خرید کیا، ایک تو موقع پر اسی وقت دے دیا اور کہا دوسرا بلاتا خیر ان شاء اللہ کل دوں گا۔ حضرت ابن مسیب نے کہا: حیوانات میں سود نہیں ایک اونٹ دو اونٹوں کے عوض اور ایک بکری دو بکریوں کے عوض ادھار خریدنا جائز ہے۔ حضرت ابن سیرین نے فرمایا کہ ایک اونٹ کودو اونٹوں کے عوض اور ایک درہم کو ایک درہم کے عوض ادھار خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ قیدیوں میں حضرت صفیہ ؓ بھی تھیں۔ پہلے تو وہ دحیہ کلبی ؓ کو ملیں پھر نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ جانور سے جانور کا تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح غلام کا غلام سے، لونڈی کا لونڈی سے، کیوں کہ یہ سب حیوان ہی تو ہیں۔ اور ہر حیوان کا یہی حکم ہوگا۔ بعض نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں کمی اور زیادتی کا ذکرنہیں ہے اور نہ ادھار کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو امام مسلم نے نکالا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے صفیہ ؓ کو سات لونڈیاں دے کر خریدا۔ ابن بطال نے کہا جب آپ نے دحیہ ؓ سے فرمایا کہ تو صفیہ ؓ کے بدل میں اور کوئی لونڈی قیدیوں میں سے لے لے تو یہ بیع ہوئی لونڈی کی بعوض لونڈی کے ادھار اور اس کا یہی مطلب ہے۔ (وحیدی) حضرت دحیہ کلبی ؓ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں۔ مرتبہ والے صحابی ہیں۔ غزوہ احد اور بعد کے جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ 6ھ میں آنحضرت ﷺ نے ان کو قیصر شاہ روم کے دربار میں نامہ مبارک دے کر بھیجا تھا۔ قیصر نے مسلمان ہونا چاہا مگر اپنی عیسائی رعایا کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ دحیہ ؓ وہی صحابی ہیں کہ حضرت جبریل ؑ اکثر ان کی شکل میں آنحضرت ﷺ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے۔ آخر میں حضرت دحیہ کلبی ؓ ملک شام میں چلے گئے اور عہد معاویہ تک وہیں رہے۔ بہت سے تابعین نے ان سے روایت کی ہے۔ حدیث صفیہ ؓ میں ان ہی کا ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Amongst the captives was Safiya. First she was given to Dihya Al-Kalbi and then to the Prophet.