Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam for a known specified weight)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2240.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔‘‘ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: ’’معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں کھجور کا ذکر ہے کیونکہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے متعلق ہی بیع سلم ہوا کرتی تھی، لیکن اگر کھجوریں درخت پر ہیں اور ان کی بیع سلم کرنی ہے تو اس کی شرائط آگے بیان ہوں گی، اس مقام پر صرف یہ بیان کرنا مقصد ہے کہ ماپ اور وزن کے ساتھ مدت کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، اگر اس میں خیانت ہوتو مقدمہ کیا جاسکتا ہے اور تاوان بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ (2) روز مرہ کی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کا سودا گنتی کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً: انڈوں کی خریدوفروخت ان میں گنتی کا اعتبار ہوگا۔ یاد رہے کہ رقم کی ادائیگی میں کچھ پیشگی ہوسکتی ہے اور کچھ آئندہ وعدے پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں بنک گارنٹی بھی کارآمد ہے بشرطیکہ اس میں سود کی آمیزش نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2173
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2240
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2240
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2240
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔‘‘ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: ’’معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں کھجور کا ذکر ہے کیونکہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے متعلق ہی بیع سلم ہوا کرتی تھی، لیکن اگر کھجوریں درخت پر ہیں اور ان کی بیع سلم کرنی ہے تو اس کی شرائط آگے بیان ہوں گی، اس مقام پر صرف یہ بیان کرنا مقصد ہے کہ ماپ اور وزن کے ساتھ مدت کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، اگر اس میں خیانت ہوتو مقدمہ کیا جاسکتا ہے اور تاوان بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ (2) روز مرہ کی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کا سودا گنتی کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً: انڈوں کی خریدوفروخت ان میں گنتی کا اعتبار ہوگا۔ یاد رہے کہ رقم کی ادائیگی میں کچھ پیشگی ہوسکتی ہے اور کچھ آئندہ وعدے پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں بنک گارنٹی بھی کارآمد ہے بشرطیکہ اس میں سود کی آمیزش نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن کثیر نے، انہیں ابومنہال نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے، اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے۔ ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا۔ (اس روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا بیع سلف مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لی کرنا چاہئے۔ یہاں بیع سلم پر لفظ سلف بولا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مثلاً سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کروں گا۔ یہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا۔ یہ بیع سلم ہے، جو جائز ہے۔ اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) came to Madinah and the people used to pay in advance the price of dates to be delivered within two or three years. He said (to them), "Whoever pays in advance the price of a thing to be delivered later should pay it for a specified measure at specified weight for a specified period." ________