Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam for a known specified weight)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2242.
حضرت عبداللہ بن ابو مجاہد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ عبداللہ بن شداد اور ابوہریرہ ؓ نے بیع سلم کے متعلق اختلاف کیاتو لوگوں نے مجھے حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر ؓ اورحضرت عمر ؓ کے زمانے میں گندم، جو منقیٰ اور کھجور میں بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزی سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ اور وزن کے قابل ہیں ان کا ماپ اور وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے، نیز اوصاف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوسکے اور آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہو۔ (فتح الباري:543/4) (2) دراصل کاریگروں اور کاشت کاروں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا کام جائز نہ ہوتو وہ کاروبار نہیں کرسکیں گے۔(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا لین دین مدینہ طیبہ میں بہت عام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر اسے جاری رکھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2175
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2242
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2242
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2242
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
حضرت عبداللہ بن ابو مجاہد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ عبداللہ بن شداد اور ابوہریرہ ؓ نے بیع سلم کے متعلق اختلاف کیاتو لوگوں نے مجھے حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر ؓ اورحضرت عمر ؓ کے زمانے میں گندم، جو منقیٰ اور کھجور میں بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزی سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ اور وزن کے قابل ہیں ان کا ماپ اور وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے، نیز اوصاف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوسکے اور آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہو۔ (فتح الباري:543/4) (2) دراصل کاریگروں اور کاشت کاروں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا کام جائز نہ ہوتو وہ کاروبار نہیں کرسکیں گے۔(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا لین دین مدینہ طیبہ میں بہت عام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر اسے جاری رکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی مجالد نے (تیسری سند) اور ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے۔ (دوسری سند) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے محمد اور عبداللہ بن ابی مجالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد اور ابوبردہ میں بیع سلم کے متعلق باہم اختلاف ہوا۔ تو ان حضرات نے مجھے ابن ابی اوفی ؓ کے خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ، ابوبکر اور عمر ؓ کے زمانوں میں گیہوں، جو، منقی اور کھجور کی بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزیٰ ؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ فرماتے ہیں: أجمعوا علی أنه إن کان في السلم ما یکال أو یوزن فلا بد فیه من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فإن کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیه من عدد معلوم۔ یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام ؓ کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): Once the Prophet (ﷺ) stood at the top of one of the castles (or higher buildings) of Madinah and said, "Do you see what I see? No doubt I am seeing the spots of afflictions amongst your houses as numerous as the spots where rain-drops fall (during a heavy rain). (See Hadith No. 102)