باب: اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو
)
Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam to a person who has got nothing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2244.
محمد بن ابو مجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوہریرۃ ؓ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ گندم میں بیع سلم کیاکرتے تھے؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے فرمایا: ہاں! ہم شام کے کاشتکاروں سے گندم، جو اور روغن میں ایک معین ماپ اور معین مدت ٹھہرا کر بیع سلم کیا کرتے تھے۔ میں نے دریافت کیا: آیا تم اس شخص سے یہ سودا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال ہوتا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے عبدالرحمان بن ابزی کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے پاس کھیتی ہے یانہیں؟ محمد بن ابو مجالد کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: ہم گندم اور جو میں بیع سلم کیاکرتے تھے اور سفیان سے روایت ہے کہ شیبانی نے اس میں لفظ ’’روغن‘‘ کااضافہ کیا ہے اور جریر نے شیبانی سے جو حدیث بیان کی ہے اس میں ’’ گندم‘‘ ، جو اور ’’منقیٰ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی ان اشیاء میں بیع سلم کرتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں اصل سے مراد ’’ آئندہ ادا کی جانے والی چیز‘‘ کی اصل ہے،چنانچہ گندم کی اصل کھیتی ہے اور پھلوں کی اصل درخت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بیع سلم میں کوئی شخص یہ شرط نہ لگائے کہ جس شخص سے معاملہ کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ چیز کے ذرائع بھی رکھتا ہو،مثلاً: یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں سے انڈے لینے کا معاملہ کیاجارہا ہے ان کے پاس کوئی پولٹری فارم ہویا گندم کا معاملہ صرف کھیتی یا مالکان زمین سے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک مرغی یا گندم کا ایک پودا بھی نہ ہو لیکن وہ ہزاروں درجن انڈے یا ہزاروں من گندم فراہم کرسکتا ہو۔ (2) اس میں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس بیع میں دھوکا ممکن ہے، اس لیے کہ جب ذریعہ ہی نہیں تو کہاں سے فراہم ہوں گے، اس حدیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2176
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2244
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2244
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2244
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
تمہید باب
مثلاً ایک شخص کے پاس کھجور نہیں ہے اور کسی نے اس سے کھجور لینے کے لیے سلم کیا۔ بعض نے کہا اصل سے مراد ا س کی بنا ہے، مثلاً غلہ کی اصل کھیتی ہے اور میوے کی اصل درخت ہے۔ اس باب سے یہ غرض ہے کہ سلم کے جواز کے لیے اس مال کا مسلم الیہ کے پاس ہونا ضروری نہیں۔
محمد بن ابو مجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوہریرۃ ؓ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ گندم میں بیع سلم کیاکرتے تھے؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے فرمایا: ہاں! ہم شام کے کاشتکاروں سے گندم، جو اور روغن میں ایک معین ماپ اور معین مدت ٹھہرا کر بیع سلم کیا کرتے تھے۔ میں نے دریافت کیا: آیا تم اس شخص سے یہ سودا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال ہوتا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے عبدالرحمان بن ابزی کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے پاس کھیتی ہے یانہیں؟ محمد بن ابو مجالد کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: ہم گندم اور جو میں بیع سلم کیاکرتے تھے اور سفیان سے روایت ہے کہ شیبانی نے اس میں لفظ ’’روغن‘‘ کااضافہ کیا ہے اور جریر نے شیبانی سے جو حدیث بیان کی ہے اس میں ’’ گندم‘‘ ، جو اور ’’منقیٰ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی ان اشیاء میں بیع سلم کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اصل سے مراد ’’ آئندہ ادا کی جانے والی چیز‘‘ کی اصل ہے،چنانچہ گندم کی اصل کھیتی ہے اور پھلوں کی اصل درخت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بیع سلم میں کوئی شخص یہ شرط نہ لگائے کہ جس شخص سے معاملہ کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ چیز کے ذرائع بھی رکھتا ہو،مثلاً: یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں سے انڈے لینے کا معاملہ کیاجارہا ہے ان کے پاس کوئی پولٹری فارم ہویا گندم کا معاملہ صرف کھیتی یا مالکان زمین سے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک مرغی یا گندم کا ایک پودا بھی نہ ہو لیکن وہ ہزاروں درجن انڈے یا ہزاروں من گندم فراہم کرسکتا ہو۔ (2) اس میں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس بیع میں دھوکا ممکن ہے، اس لیے کہ جب ذریعہ ہی نہیں تو کہاں سے فراہم ہوں گے، اس حدیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم ﷺ کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ ؓ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط ( ایک کاشتکار قوم ) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمن بن ابزیٰ ؓ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جو اور منقی میں (بیع سلم کیا کرتے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔ معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔ مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔ لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: جَمْعُ نُبَيْطٍ: وَهُمْ قَوْمٌ مَعْرُوفُونَ كَانُوا يَنْزِلُونَ بِالْبَطَائِحِ بَيْنَ الْعِرَاقَيْنِ قَالَهُ الْجَوْهَرِيُّ، وَأَصْلُهُمْ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ دَخَلُوا فِي الْعَجَمِ وَاخْتَلَطَتْ أَنْسَابُهُمْ وَفَسَدَتْ أَلْسِنَتُهُمْ، وَيُقَالُ لَهُمْ: النَّبَطُ بِفَتْحَتَيْنِ، وَالنَّبِيطُ بِفَتْحِ أَوَّلِهِ وَكَسْرِ ثَانِيهِ وَزِيَادَةِ تَحْتَانِيَّةٍ، وَإِنَّمَا سُمُّوا بِذَلِكَ لِمَعْرِفَتِهِمْ بِإِنْبَاطِ الْمَاءِ: أَيْ: اسْتِخْرَاجِهِ لِكَثْرَةِ مُعَالَجَتِهِمْ الْفِلَاحَةَ وَقِيلَ: هُمْ نَصَارَى الشَّامِ، وَهُمْ عَرَبٌ دَخَلُوا فِي الرُّومِ وَنَزَلُوا بَوَادِي الشَّامِ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا قَوْلُهُ: " مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ " وَقِيلَ: هُمْ طَائِفَتَانِ: طَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالْعَجَمِ وَنَزَلُوا الْبَطَائِحَ وَطَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالرُّومِ وَنَزَلُوا الشَّامَ(نیل الأوطار)یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔ یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔ نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔ یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔ اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔ انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔ اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔ مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔ روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔ اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔ بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Al-Majalid (RA): Abdullah bin Shaddad and Abu Burda sent me to 'Abdullah bin Abi Aufa and told me to ask 'Abdullah whether the people in the life-time of the Prophet (ﷺ) used to pay in advance for wheat (to be delivered later). Abdullah replied, "We used to pay in advance to the peasants of Sham for wheat, barley and olive oil of a known specified measure to be delivered in a specified period." I asked (him), "Was the price paid (in advance) to those who had the things to be delivered later?" Abdullah bin Aufa replied, "We did not use to ask them about that." Then they sent me to 'Abdur Rahman bin Abza (RA) and I asked him. He replied, "The companions of the Prophet (ﷺ) used to practice Salam in the life-time of the Prophet; and we did not use to ask them whether they had standing crops or not." ________