Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: Mortgaging in As-Salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2252.
حضرت ا عمش سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے سامنے بیع سلم میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے اسود نے حضرت عائشہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سےمعین مدت تک ادائیگی پر کچھ غلہ خریدا اور اسکے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔
تشریح:
(1) اس عنوان اور حدیث سے امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے جو کہتے ہیں کہ بیع سلم میں رہن جائز نہیں۔ (2) علامہ اسماعیلی نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے حضرات ابراہیم نخعی سے کہا کہ حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سلم میں رہن رکھنا سود ہے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے مذکورہ حدیث بیان کرکے اس کی تردید کی، یعنی جب قیمت وصول کرنے کےلیے رہن رکھی جاسکتی ہے تو خرید کردہ چیز وصول کرنے کےلیے گروی کیوں نہیں رکھی جاسکتی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (فتح الباري:547/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2181
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2252
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2252
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2252
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
حضرت ا عمش سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے سامنے بیع سلم میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے اسود نے حضرت عائشہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سےمعین مدت تک ادائیگی پر کچھ غلہ خریدا اور اسکے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان اور حدیث سے امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے جو کہتے ہیں کہ بیع سلم میں رہن جائز نہیں۔ (2) علامہ اسماعیلی نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے حضرات ابراہیم نخعی سے کہا کہ حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سلم میں رہن رکھنا سود ہے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے مذکورہ حدیث بیان کرکے اس کی تردید کی، یعنی جب قیمت وصول کرنے کےلیے رہن رکھی جاسکتی ہے تو خرید کردہ چیز وصول کرنے کےلیے گروی کیوں نہیں رکھی جاسکتی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (فتح الباري:547/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیا ن کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے سامنے بیع سلم میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہم سے اسود نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مقررہ مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
یہ مسئلہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے ﴿إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾(البقرة :283) آخر تک۔ پھر فرمایا فرہانا مقبوضة(البقرة :283)یعنی جب کسی مقررہ وقت کے لیے قرض لو تو کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھ لو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-A'mash (RA): We argued at Ibrahim's dwelling place about mortgaging in Salam. He said, "Aisha said, 'The Prophet (ﷺ) bought some foodstuff from a Jew on credit and the payment was to be made by a definite period, and he mortgaged his iron armor to him."