Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam for a fixed specified period)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عباس ؓاور ابوسعید خدری ؓ اور اسود اور امام حسن بصری نے یہی کہا ہے۔ اور ابن عمر ؓ نے کہا اگر غلہ کا نرخ اور اس کی صفت بیان کر دی جائے تو میعاد معین کرکے اس میں بیع سلم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر یہ غلہ کسی خاص کھیت کا نہ ہو، جوابھی پکا نہ ہو۔ تشریح : یعنی اگر کسی خاص کھیت کے غلہ میں یا کسی خاص درخت کے میوہ میں سلم کرے اور ابھی وہ غلہ یا میوہ تیار نہ ہوا ہو تو سلم درست نہ ہوگی، لیکن تیار ہونے کے بعد خاص کھیت اور خاص پیداوار میں بھی سلم کرنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک غلہ یا میوہ پختگی پر نہ آیا ہو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہوسکتا کہ غلہ یا میوہ اترے گا یا نہیں۔ احتمال ہے کہ کسی آفت ارضی یا سماوی سے یہ غلہ اور میوہ تباہ ہو جائے پھر دونوں میں جھگڑا ہو۔ ( وحیدی ) حضرت امام بخاری نے یہ باب لا کر شافعیہ کا رد کیا ہے جو سلم کو بن میعاد یعنی نقد بھی جائز رکھتے ہیں۔ حنفیہ اور مالکیہ امام بخاری کے موافق ہیں۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ کم سے کم مدت کیا ہونی چاہئے۔ پندرہ دن سے لے کر آدھے دن تک کی مدت کے مختلف اقوال ہیں۔ طحاوی نے تین دن کو کم سے کم مدت قرار دیا ہے۔ امام محمد نے ایک مہینہ مدت ٹھہرائی ہے۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جن کا یہاں ذکر ہے ابوالحسن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوسعید ہے، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان کے والد ابوالحسن کا نام یسار ہے۔ یہ قبیلہ بن سبئی یلسان سے ہیں۔ یسار کو ربیع بنت نضر نے آزاد کیا تھا۔ امام حسن بصری جب کہ خلافت عمری کے دو سال باقی تھے۔ عالم وجود میں آئے۔ مدینہ منورہ مقام ولادت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے کھجور منہ میں چبا کر ان کے تالو سے لگائی۔ ان کی والدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھیں۔ بسااوقات ان کی والدہ کہیں چلی جاتیں تو حسن بصری کو بہلانے کے لیے حضرت ام سلمہ ؓ اپنی چھاتی ان کے منہ میں دے دیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی والدہ لوٹ کر آتیں تو ام المومنین کے دودھ بھر آتا اور یہ حضرت اسے پی لیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے رضای فرزند ثابت ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس علم و حکمت پر امام حسن بصریپہنچے یہ اسی کا طفیل ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد یہ بصرہ چلے آئے۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا۔ اور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں یہ حضرت علی ؓ سے بھی ملے۔ لیکن بصرہ میں ان کا حضرت علیؓ سے ملنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت حسن بصری جس وقت بصرہ کو جارہے تھے تو وہ وادی قریٰ ہی میں تھے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس وقت بصرہ میں تشریف لا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور دوسرے اکابر صحابہ سے روایت کی ہے۔ اور ان سے بھی ایک بڑی جماعت تابعین اور تبع تابعین نے روایات کی ہیں۔ وہ اپنے زمانہ میں علم و فن، زہد و تقوی و عبادت اور ورع کے امام تھے۔ رجب110ھ میں وفات پائی۔ حشرنا اللہ معہم و جمع اللہ بیننا و بینہم فی اعلیٰ علیین آمین
2254.
حضرت محمد بن ابومجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے ابو بردہ اور عبداللہ بن شداد ؓنے حضرت عبدالرحمان بن ابزی اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا، چنانچہ میں نے ان سے بیع سلم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غنیمت کا مال ملتا تھا اور ہمارے پاس ملک شام کے کاشتکاروں میں سے کچھ لوگ آتے تو ہم ان سے گندم جو اور منقی کے متعلق معین مدت کی ادائیگی تک بیع سلم کرتے تھے۔ میں نے کہا: ان کی کھیتی ہوتی تھی یا نہیں؟انھوں نے کہا: اس کے متعلق ہم ان سے دریافت نہیں کیاکرتے تھے۔
تشریح:
(1) سلف اور سلم دونوں الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی کسی چیز کے متعلق پیشگی سودا کرلیا، قیمت پہلے ادا کردی، پھر معین مدت کے بعد معلوم وزن یا ناپ یا تعداد کے اعتبار سے وہ چیز لے لی۔ (2) جن لوگوں سے غلہ وغیرہ خریدا جاتا ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ جہاں سے چاہیں مال مہیا کرکے وقت مقررہ پر حوالے کردیں، ہاں اگر متعین طریقے پر یوں معاملہ کیا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم اتنے من مطلوب ہے جو وہاں موجود نہیں تو ایسا معاملہ شرعاً درست نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2183
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2254
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2254
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2254
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر امام شافعی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے(الام للشافعی:3/94) اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا قول امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن (6/25) میں ذکر کیا ہے۔حضرت حسن بصری کاقول سعید بن منصور نے اور حضرت اسود کا اثر ابن ابی شیبہ نے متصل اسناد سے ذکر کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:5/269،وفتح الباری:4/547) ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر امام مالک رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔( الموطا للامام مالک:2/177،حدیث:1381) بیع سلم کی دوقسمیں ہیں: سلم حالی، یعنی نقد بنقد سودا کیا جائے۔٭ سلم مالی، یعنی قیمت نقد ہو لیکن خرید کردہ چیز ایک معین مدت تک مؤخر کردی جائے۔شافعی حضرات پہلی قسم کو جائز کہتے ہیں اور دوسری قسم ان کے ہاں ناجائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ جب جلیل القدر صحابہ اور تابعین اسے جائز کہتے ہیں تو اس کے ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابن عباس ؓاور ابوسعید خدری ؓ اور اسود اور امام حسن بصری نے یہی کہا ہے۔ اور ابن عمر ؓ نے کہا اگر غلہ کا نرخ اور اس کی صفت بیان کر دی جائے تو میعاد معین کرکے اس میں بیع سلم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر یہ غلہ کسی خاص کھیت کا نہ ہو، جوابھی پکا نہ ہو۔ تشریح : یعنی اگر کسی خاص کھیت کے غلہ میں یا کسی خاص درخت کے میوہ میں سلم کرے اور ابھی وہ غلہ یا میوہ تیار نہ ہوا ہو تو سلم درست نہ ہوگی، لیکن تیار ہونے کے بعد خاص کھیت اور خاص پیداوار میں بھی سلم کرنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک غلہ یا میوہ پختگی پر نہ آیا ہو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہوسکتا کہ غلہ یا میوہ اترے گا یا نہیں۔ احتمال ہے کہ کسی آفت ارضی یا سماوی سے یہ غلہ اور میوہ تباہ ہو جائے پھر دونوں میں جھگڑا ہو۔ ( وحیدی ) حضرت امام بخاری نے یہ باب لا کر شافعیہ کا رد کیا ہے جو سلم کو بن میعاد یعنی نقد بھی جائز رکھتے ہیں۔ حنفیہ اور مالکیہ امام بخاری کے موافق ہیں۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ کم سے کم مدت کیا ہونی چاہئے۔ پندرہ دن سے لے کر آدھے دن تک کی مدت کے مختلف اقوال ہیں۔ طحاوی نے تین دن کو کم سے کم مدت قرار دیا ہے۔ امام محمد نے ایک مہینہ مدت ٹھہرائی ہے۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جن کا یہاں ذکر ہے ابوالحسن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوسعید ہے، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان کے والد ابوالحسن کا نام یسار ہے۔ یہ قبیلہ بن سبئی یلسان سے ہیں۔ یسار کو ربیع بنت نضر نے آزاد کیا تھا۔ امام حسن بصری جب کہ خلافت عمری کے دو سال باقی تھے۔ عالم وجود میں آئے۔ مدینہ منورہ مقام ولادت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے کھجور منہ میں چبا کر ان کے تالو سے لگائی۔ ان کی والدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھیں۔ بسااوقات ان کی والدہ کہیں چلی جاتیں تو حسن بصری کو بہلانے کے لیے حضرت ام سلمہ ؓ اپنی چھاتی ان کے منہ میں دے دیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی والدہ لوٹ کر آتیں تو ام المومنین کے دودھ بھر آتا اور یہ حضرت اسے پی لیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے رضای فرزند ثابت ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس علم و حکمت پر امام حسن بصریپہنچے یہ اسی کا طفیل ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد یہ بصرہ چلے آئے۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا۔ اور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں یہ حضرت علی ؓ سے بھی ملے۔ لیکن بصرہ میں ان کا حضرت علیؓ سے ملنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت حسن بصری جس وقت بصرہ کو جارہے تھے تو وہ وادی قریٰ ہی میں تھے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس وقت بصرہ میں تشریف لا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور دوسرے اکابر صحابہ سے روایت کی ہے۔ اور ان سے بھی ایک بڑی جماعت تابعین اور تبع تابعین نے روایات کی ہیں۔ وہ اپنے زمانہ میں علم و فن، زہد و تقوی و عبادت اور ورع کے امام تھے۔ رجب110ھ میں وفات پائی۔ حشرنا اللہ معہم و جمع اللہ بیننا و بینہم فی اعلیٰ علیین آمین
حدیث ترجمہ:
حضرت محمد بن ابومجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے ابو بردہ اور عبداللہ بن شداد ؓنے حضرت عبدالرحمان بن ابزی اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا، چنانچہ میں نے ان سے بیع سلم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غنیمت کا مال ملتا تھا اور ہمارے پاس ملک شام کے کاشتکاروں میں سے کچھ لوگ آتے تو ہم ان سے گندم جو اور منقی کے متعلق معین مدت کی ادائیگی تک بیع سلم کرتے تھے۔ میں نے کہا: ان کی کھیتی ہوتی تھی یا نہیں؟انھوں نے کہا: اس کے متعلق ہم ان سے دریافت نہیں کیاکرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سلف اور سلم دونوں الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی کسی چیز کے متعلق پیشگی سودا کرلیا، قیمت پہلے ادا کردی، پھر معین مدت کے بعد معلوم وزن یا ناپ یا تعداد کے اعتبار سے وہ چیز لے لی۔ (2) جن لوگوں سے غلہ وغیرہ خریدا جاتا ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ جہاں سے چاہیں مال مہیا کرکے وقت مقررہ پر حوالے کردیں، ہاں اگر متعین طریقے پر یوں معاملہ کیا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم اتنے من مطلوب ہے جو وہاں موجود نہیں تو ایسا معاملہ شرعاً درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ا بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓحضرت حسن بصری اور حضرت اسود اسی کے قائل ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اگر غلے کا نرخ اور اس کی صفت معلوم ہوتوا س کی میعاد معین کرکے سلم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ وہ غلہ کسی خاص کھیت کانہ ہو جس کی صلاحیت ابھی ظاہر نہ ہوئی ہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں سلیمان شیبانی نے، انہیں محمد بن ابی مجالد نے، کہا کہ مجھے ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد نے عبدالرحمن بن ابزیٰ ؓ اور عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان دونوں حضرات سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں غنیمت کا مال پاتے، پھر شام کے انباط (ایک کاشتکار قوم) ہمارے یہاں آتے تو ہم ان سے گیہوں، جو اور منقی کی بیع سلم ایک مدت مقرر کرکے کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے پوچھا کہ ان کے پاس اس وقت یہ چیزیں موجود بھی ہوتی تھیں یا نہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم اس کے متعلق ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Abi Al-Mujalid (RA): Abu Burda and 'Abdullah bin Shaddad sent me to 'Abdur Rahman bin Abza (RA) and 'Abdullah bin Abi Aufa to ask them about the Salaf (Salam). They said, "We used to get war booty while we were with Allah's Apostle (ﷺ) and when the peasants of Sham came to us we used to pay them in advance for wheat, barley, and oil to be delivered within a fixed period." I asked them, "Did the peasants own standing crops or not?" They replied, "We never asked them about it."