Sahi-Bukhari:
Shuf'a
(Chapter: Who is considered the nearer neighbour?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2259.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔‘‘
تشریح:
(1) ابن بطال ؒ کہتے ہیں: اس حدیث سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے تو یہ سوال کیا تھا کہ اگر کئی پڑوسی ہوں تو پہلے کس کودوں؟ اسی بات کو امین احسن اصلاحی نے نقل کیا ہے کہ جو پڑوسی زیادہ نزدیک ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ تحفہ اس کو بھیجا جائے لیکن زمین یا جائیداد کی بیع کا معاملہ تحفہ لینے دینے سے بالکل مختلف ہے۔ آگے لکھا ہے کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ پڑوسی کو ہدیہ دینے کی اس روایت کو امام صاحب یہاں کیوں لائے ہیں اور شفعے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ (تدبرحدیث:544/1) کاش! حضرت اس مقام پر فتح الباری دیکھ لیتے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن بطال کا یہی اعتراض نقل کرکے اس کا جواب بھی دیا ہے، فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ نے حدیث ابو رافع سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت کیا ہے اور حدیث عائشہ کو کتاب الشفعہ میں ذکر کرکے دروازے کے اعتبار سے قریب والے کو دور والے پرمقدم قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑوسی جس کا گھر صاحب جائیداد سے متصل ہے وہ دوسرے پڑوسی سے مقدم ہوگا، یعنی اسے شفعے کا زیادہ حق ہوگا۔ (فتح الباري:554/4) (2) ان حضرات کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ احادیث کی شروح سے اعتراض لےلیتے ہیں اور اس کے جواب کو نظر انداز کرجاتے ہیں، حالانکہ شارحین نے اعتراض اس لیے ذکر کیا ہوتا ہے کہ اس کا معقول جواب دیا جائے۔ ان حضرات نے"حدیث افک" پر جو اعتراضات کیے ہیں وہاں بھی یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اعمال وعقائد کی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔ آمين.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2187
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2259
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2259
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2259
تمہید کتاب
ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جائیداد کا بلا شرکت غیرے مالک ہو،وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا،چنانچہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی جائیداد کے کئی شریک ہوں تو جب تک ان میں اتفاق رہتا ہے شریک اپنے حصے سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے لیکن جب ان میں تنہا فائدہ لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپس میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر شریک دوسرے کو محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ صورت اس وقت زیادہ پریشان کن ثابت ہوتی ہے جب کوئی شریک اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔اس حق تلفی کی روک تھام کےلیے شریعت نے شریک کو شفعے کا حق دیا ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث پر ہے جن کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ شریک اور ہمسایہ دونوں کے لیے ثابت ہے۔اسلامی قانون شفعہ باہمی امن وسکون کی خاطر اس شریک کو جو اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا حصہ کسی غیر شخص کو فروخت کرنے کے بجائے اپنے شریک کے ہاتھ فروخت کرے۔اگر وہ شریک نہ خریدنا چاہے تو اس کو اختیار ہے کہ جس کے ہاتھ چاہے فروخت کردے۔اگر ایک شریک جائیداد نے اپنا حصہ کسی غیر شخص کے ہاتھ فروخت کردیا تو دوسرے شریک کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اس خریدار سے اسی قیمت پر بحق شفعہ اس جائیداد کو حاصل کرے۔حق شفعہ اصول پر قائم ہے کہ جائیداد غیر منقسم کا ہر ایک حصہ دار جائیداد کے ہر فرد میں شریک ہو۔جو شریک اپنا حصہ فروخت کرتا ہے وہ دوسرے شرکاء کے حصص کے استفادے میں دخل دیتا ہے جس کی اجازت شرکاء کی رضامندی کے بغیر نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح ہر انسان یہ پسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہمسایہ میسر آئے جو عادات وخصائل اور آداب رہن سہن میں اس جیسا ہو۔اسلامی قانون شفعہ ایک شخص کو یہ بھی حق دیتا ہے کہ اس کی ہمسائیگی میں اگر کوئی جائیداد فروخت ہورہی ہے تو وہ اسے بحق شفعہ حاصل کرلے کیونکہ شفعہ کی دو حکمتیں ہیں:(1) جائیداد کو تقسیم کے نقصانات سے محفوظ رکھا جائے۔(2) ناپسندیدہ اجنبی شخص کو اس کے پڑوس میں داخل ہونے سے روکا جائے۔امام بخای رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انھوں نے شفعے کے متعلق صرف تین احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک مکرر اور دو خالص ہیں۔انھیں بیان کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ منفرد ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے انھیں روایت نہیں کیا۔انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث وآثار پر انھوں نے تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شفعے کے متعلق اپنے رجحانات کو واضح کیا ہے۔عنوانات کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)شفعہ صرف اس جائیداد میں ہوگا جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔جب حد بندی ہوجائے تو شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔(2)فروخت سے پہلے شفعے کو صاحب شفعہ پر پیش کرنا۔(3) کون سا ہمسایہ زیادہ حق دار ہے؟شفعے کے لیے چند ایک شرائط ہیں جو آئندہ بیان ہوں گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی مشروعیت کے متعلق لکھتے ہیں: شفعے کی مشروعیت میں ابوبکر الاصم کے علاوہ کسی نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا۔اہل علم کے نزدیک ایسے شریک کےلیے جس نے ابھی تک اپنا حصہ تقسیم نہیں کیا حق شفعہ ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔( فتح الباری:4/550) ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کرنے کی استدعا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
معلوم ہوا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ متفق ہیں کہ ہمسایہ کو حق شفعہ ثابت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ابن بطال ؒ کہتے ہیں: اس حدیث سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے تو یہ سوال کیا تھا کہ اگر کئی پڑوسی ہوں تو پہلے کس کودوں؟ اسی بات کو امین احسن اصلاحی نے نقل کیا ہے کہ جو پڑوسی زیادہ نزدیک ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ تحفہ اس کو بھیجا جائے لیکن زمین یا جائیداد کی بیع کا معاملہ تحفہ لینے دینے سے بالکل مختلف ہے۔ آگے لکھا ہے کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ پڑوسی کو ہدیہ دینے کی اس روایت کو امام صاحب یہاں کیوں لائے ہیں اور شفعے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ (تدبرحدیث:544/1) کاش! حضرت اس مقام پر فتح الباری دیکھ لیتے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن بطال کا یہی اعتراض نقل کرکے اس کا جواب بھی دیا ہے، فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ نے حدیث ابو رافع سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت کیا ہے اور حدیث عائشہ کو کتاب الشفعہ میں ذکر کرکے دروازے کے اعتبار سے قریب والے کو دور والے پرمقدم قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑوسی جس کا گھر صاحب جائیداد سے متصل ہے وہ دوسرے پڑوسی سے مقدم ہوگا، یعنی اسے شفعے کا زیادہ حق ہوگا۔ (فتح الباري:554/4) (2) ان حضرات کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ احادیث کی شروح سے اعتراض لےلیتے ہیں اور اس کے جواب کو نظر انداز کرجاتے ہیں، حالانکہ شارحین نے اعتراض اس لیے ذکر کیا ہوتا ہے کہ اس کا معقول جواب دیا جائے۔ ان حضرات نے"حدیث افک" پر جو اعتراضات کیے ہیں وہاں بھی یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اعمال وعقائد کی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔ آمين.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شبابہ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، کہا کہ میں نے طلحہ بن عبداللہ سے سنا، اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجو؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ حافظ ؒنے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have two neighbors and would like to know to which of them I should give presents." He replied, "To the one whose door is nearer to you."