باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اچھا مزدور جس کو تو رکھے وہ ہے جو زور دار، امانت دار ہو
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: To hire a pious man)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔ اجارہ کے معنی مزدوری کے ہیں اصطلاح میں یہ کہ کوئی شخص کسی مقررہ اجرت پر مقررہ مدت کے لیے اپنی ذات کا کسی کو مالک بنا دے۔
2260.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’امانت دار خزانچی جو حکم کے مطابق دلی خوشی سے ٹھیک ٹھیک ادائیگی کرتا ہے وہ صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘
تشریح:
کسی کے مال کا خزانچی، صاحب مال کا اجیر (مزدور) ہوتا ہے۔اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اجارے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق "امین خازن" عام معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی جو بھی کسی ادائیگی پر مامور ہے اور ادائیگی ٹھیک ٹھیک کرتا ہے، لوگوں کا جو حق بنتا ہے وہ پورا پورا ادا کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سرکار کے خزانے سے دے رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی خرچ کرنے کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ایسے آدمی کا امانت دار ہونا انتہائی ضروری ہے، بصورت دیگر بہت سے نقصانات کا اندیشہ ہے۔ "حضرت" امین احسن اصلاحی کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں: ’’باب الاجارہ سے اس روایت کا تعلق نہایت بعید ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:548/1) کاش! اصلاحی صاحب کسی ماہر فن،راسخ العلم محدث کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ ان سے حدیث پڑھتے تو ایسی ناپختہ باتیں لکھنے کی جرأت نہ کرتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2188
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2260
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2260
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2260
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز یہ ہے کہ مزدوری کےلیے کسی نیک سیرت اور امانت دار آدمی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ ایسا مزدور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کا پورا حق ادا کرے گا اور کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کا رزق حلال کی خاطر مزدوری کرنا کوئی عیب اور عار کی بات نہیں اور نیک سیرت لوگوں کو مزدوری پر لگانا بھی کوئی بری بات نہیں بلکہ ہر دو کے لیے باعث خیروبرکت اور موجب اجرو ثواب ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ فرعون میرے قتل کے درپے ہے تو انھوں نے مصر سے بھاگ کر مدین کا رخ کیا۔راستے میں ایک کنویں کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں۔ان کے ایک طرف دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو روکے ہوئے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ایک طرف کھڑے ہونے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ہم لوگوں کے چلے جانے کا انتظار کررہی ہیں تاکہ ان کے بعد ہم اپنی بکریوں کو پانی پلائیں،چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے کنویں سے پانی کھینچ کر بکریوں کو پلادیا اور کود ایک طرف درخت کے سائے میں چلے گئے۔ اس وقت لڑکیوں نے اپنے گھر جاکر والد سے کہا: اچھا مزدور جسے آپ رکھیں وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔تفسیری روایات میں ہے کہ لڑکی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طاقتور اور امانت دار ہونے کی بایں طور وضاحت کی کہ انھوں نے تنہا کنویں کے منہ سے پتھر اٹھایا جسے بمشکل کئی آدمی اٹھاتے تھے اور گھر واپس ہوتے وقت انھوں نے کہا:تم میرے پیچھے پیچھے چلو تاکہ ان کی نگاہیں لڑکیوں پر نہ پڑیں۔( فتح الباری:4/556)اس آیت کو یہاں نقل کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ مزدور رکھتے وقت ان دو خوبیوں کو ملحوظ رکھا جائے۔عنوان کے دوسرے جز میں امانت دار خزانچی کے اجرو ثواب کا بیان ہے اور تیسرا جزیہ ہے کہ حرص کے طور پر عہدے کے طالب کو عہد نہ دیا جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل دو احادیث پیش کی ہیں۔
اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔ اجارہ کے معنی مزدوری کے ہیں اصطلاح میں یہ کہ کوئی شخص کسی مقررہ اجرت پر مقررہ مدت کے لیے اپنی ذات کا کسی کو مالک بنا دے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’امانت دار خزانچی جو حکم کے مطابق دلی خوشی سے ٹھیک ٹھیک ادائیگی کرتا ہے وہ صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
کسی کے مال کا خزانچی، صاحب مال کا اجیر (مزدور) ہوتا ہے۔اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اجارے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق "امین خازن" عام معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی جو بھی کسی ادائیگی پر مامور ہے اور ادائیگی ٹھیک ٹھیک کرتا ہے، لوگوں کا جو حق بنتا ہے وہ پورا پورا ادا کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سرکار کے خزانے سے دے رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی خرچ کرنے کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ایسے آدمی کا امانت دار ہونا انتہائی ضروری ہے، بصورت دیگر بہت سے نقصانات کا اندیشہ ہے۔ "حضرت" امین احسن اصلاحی کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں: ’’باب الاجارہ سے اس روایت کا تعلق نہایت بعید ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:548/1) کاش! اصلاحی صاحب کسی ماہر فن،راسخ العلم محدث کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ ان سے حدیث پڑھتے تو ایسی ناپختہ باتیں لکھنے کی جرأت نہ کرتے۔
ترجمۃ الباب:
نیز امانت دار خزانچی کا اور اس شخص کا بیان جو عہدے کے خواہشمند کو عہدہ نہ دے
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ یزید بن عبداللہ نے کہا کہ میرے دادا، ابوبردہ عامر نے مجھے خبر دی اور انہیں ان کے باپ ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ (صدقہ ادا کردے) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ashari (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The honest treasurer who gives willingly what he is ordered to give, is one of the two charitable persons, (the second being the owner)."