باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اچھا مزدور جس کو تو رکھے وہ ہے جو زور دار، امانت دار ہو
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: To hire a pious man)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔ اجارہ کے معنی مزدوری کے ہیں اصطلاح میں یہ کہ کوئی شخص کسی مقررہ اجرت پر مقررہ مدت کے لیے اپنی ذات کا کسی کو مالک بنا دے۔
2261.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اشعری قبیلے کے دو آدمی میرے ساتھ تھے۔ میں نے عرض کیا: مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یہ دونوں عہدے کے طلب گار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو ہمارے کسی عہدے کا طالب ہوتا ہے ہم اسے وہ عہدہ ہر گز نہیں دیتے۔‘‘
تشریح:
(1) اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کررہے تھے۔ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہدہ طلب کیا تو حضرت موسیٰ ؓ نے وضاحت کی: اللہ کے رسول! مجھے ان کی ذہنیت کا قطعاً کوئی علم نہ تھا۔ (صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، حدیث:6923) ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کسی عہدے پر مامور کیجیے، دوسرے نے بھی اسی طرح کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اور اس کی حرص رکھتا ہو،ہم اسے عہدے پر مامور نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح البخاري،الأحکام، حدیث:7149) (2) روایات میں اس قسم کا اختصار اور اس کی تفصیل چنداں نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن اصلاحی صاحب راویوں کے اس انداز سے بہت برہم ہیں۔ راویانِ حدیث کے خلاف ان کے خبث باطن کا اظہار اس طرح ہوا ہے، لکھتے ہیں: اس روایت میں راوی نے عبارت میں سے بہت کچھ اڑادیاہے......راوی حضرات بیان میں اس قسم کے ہاتھی نگل جاتے ہیں، اس کے بعد اپنی طرف سے اس روایت کا مفہوم متعین کیا ہے جو دوسری روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ (تدبرحدیث:548/1، 549)(3) بالعموم کسی کام کی درخواست اجرت لینے کےلیے ہوتی ہے۔اس سے اجارہ ثابت ہوتا ہے۔دیگر ذرائع معاش کو چھوڑ کر نوکری کی درخواست دینا انسان کی طمع اور لالچ کی علامت ہے،لہٰذا شریعت کا یہ کلیہ ہے کہ جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اسے خارج از بحث کردیا جائے، ہاں اگر کسی کو خود پر اعتماد ہوکہ وہ قوم کی مصلحتوں کو دوسروں کی نسبت بہتر سمجھتا ہے اور وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بھی ہے تو اس کے لیے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ نے عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔ جہاں خیانت کا گمان ہویا شبہ ہوکہ طالب عہدہ کام کو نہیں نبھا سکے گا یا اچھی طرح سر انجام نہیں دے گا تو وہاں طالب عہدہ کو عامل (سرکاری اہل کار) نہ بنایا جائے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی طالب کو مزدور ہی نہ بنایا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے تو اجارات کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ بسا اوقات مزدوروں کاپتہ ہی نہیں چلتا جب تک وہ مزدوری طلب نہ کریں۔ (4) واضح رہے کہ اسلام کا مذکورہ زریں اصول شاید عہد نبوت اور خلافت راشدہ ہی میں استعمال کیا گیا ہو۔ اب اہلیت کے بجائے خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، دوسری طرف نوکری کا حصول اور اس کےلیے دفاتر کی خاک چھاننا اور بھاری رشوتیں پیش کرنا ایک عام فیشن بن گیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2189
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2261
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2261
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2261
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز یہ ہے کہ مزدوری کےلیے کسی نیک سیرت اور امانت دار آدمی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ ایسا مزدور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کا پورا حق ادا کرے گا اور کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کا رزق حلال کی خاطر مزدوری کرنا کوئی عیب اور عار کی بات نہیں اور نیک سیرت لوگوں کو مزدوری پر لگانا بھی کوئی بری بات نہیں بلکہ ہر دو کے لیے باعث خیروبرکت اور موجب اجرو ثواب ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ فرعون میرے قتل کے درپے ہے تو انھوں نے مصر سے بھاگ کر مدین کا رخ کیا۔راستے میں ایک کنویں کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں۔ان کے ایک طرف دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو روکے ہوئے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ایک طرف کھڑے ہونے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ہم لوگوں کے چلے جانے کا انتظار کررہی ہیں تاکہ ان کے بعد ہم اپنی بکریوں کو پانی پلائیں،چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے کنویں سے پانی کھینچ کر بکریوں کو پلادیا اور کود ایک طرف درخت کے سائے میں چلے گئے۔ اس وقت لڑکیوں نے اپنے گھر جاکر والد سے کہا: اچھا مزدور جسے آپ رکھیں وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔تفسیری روایات میں ہے کہ لڑکی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طاقتور اور امانت دار ہونے کی بایں طور وضاحت کی کہ انھوں نے تنہا کنویں کے منہ سے پتھر اٹھایا جسے بمشکل کئی آدمی اٹھاتے تھے اور گھر واپس ہوتے وقت انھوں نے کہا:تم میرے پیچھے پیچھے چلو تاکہ ان کی نگاہیں لڑکیوں پر نہ پڑیں۔( فتح الباری:4/556)اس آیت کو یہاں نقل کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ مزدور رکھتے وقت ان دو خوبیوں کو ملحوظ رکھا جائے۔عنوان کے دوسرے جز میں امانت دار خزانچی کے اجرو ثواب کا بیان ہے اور تیسرا جزیہ ہے کہ حرص کے طور پر عہدے کے طالب کو عہد نہ دیا جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل دو احادیث پیش کی ہیں۔
اور امانت دار خزانچی کا ثواب اور اس کا بیان کہ جو شخص حکومت کی درخواست کرے اس کو حاکم نہ بنایا جائے۔ اجارہ کے معنی مزدوری کے ہیں اصطلاح میں یہ کہ کوئی شخص کسی مقررہ اجرت پر مقررہ مدت کے لیے اپنی ذات کا کسی کو مالک بنا دے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اشعری قبیلے کے دو آدمی میرے ساتھ تھے۔ میں نے عرض کیا: مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یہ دونوں عہدے کے طلب گار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو ہمارے کسی عہدے کا طالب ہوتا ہے ہم اسے وہ عہدہ ہر گز نہیں دیتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کررہے تھے۔ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہدہ طلب کیا تو حضرت موسیٰ ؓ نے وضاحت کی: اللہ کے رسول! مجھے ان کی ذہنیت کا قطعاً کوئی علم نہ تھا۔ (صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، حدیث:6923) ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کسی عہدے پر مامور کیجیے، دوسرے نے بھی اسی طرح کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اور اس کی حرص رکھتا ہو،ہم اسے عہدے پر مامور نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح البخاري،الأحکام، حدیث:7149) (2) روایات میں اس قسم کا اختصار اور اس کی تفصیل چنداں نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن اصلاحی صاحب راویوں کے اس انداز سے بہت برہم ہیں۔ راویانِ حدیث کے خلاف ان کے خبث باطن کا اظہار اس طرح ہوا ہے، لکھتے ہیں: اس روایت میں راوی نے عبارت میں سے بہت کچھ اڑادیاہے......راوی حضرات بیان میں اس قسم کے ہاتھی نگل جاتے ہیں، اس کے بعد اپنی طرف سے اس روایت کا مفہوم متعین کیا ہے جو دوسری روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ (تدبرحدیث:548/1، 549)(3) بالعموم کسی کام کی درخواست اجرت لینے کےلیے ہوتی ہے۔اس سے اجارہ ثابت ہوتا ہے۔دیگر ذرائع معاش کو چھوڑ کر نوکری کی درخواست دینا انسان کی طمع اور لالچ کی علامت ہے،لہٰذا شریعت کا یہ کلیہ ہے کہ جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اسے خارج از بحث کردیا جائے، ہاں اگر کسی کو خود پر اعتماد ہوکہ وہ قوم کی مصلحتوں کو دوسروں کی نسبت بہتر سمجھتا ہے اور وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بھی ہے تو اس کے لیے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ نے عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔ جہاں خیانت کا گمان ہویا شبہ ہوکہ طالب عہدہ کام کو نہیں نبھا سکے گا یا اچھی طرح سر انجام نہیں دے گا تو وہاں طالب عہدہ کو عامل (سرکاری اہل کار) نہ بنایا جائے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی طالب کو مزدور ہی نہ بنایا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے تو اجارات کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ بسا اوقات مزدوروں کاپتہ ہی نہیں چلتا جب تک وہ مزدوری طلب نہ کریں۔ (4) واضح رہے کہ اسلام کا مذکورہ زریں اصول شاید عہد نبوت اور خلافت راشدہ ہی میں استعمال کیا گیا ہو۔ اب اہلیت کے بجائے خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، دوسری طرف نوکری کا حصول اور اس کےلیے دفاتر کی خاک چھاننا اور بھاری رشوتیں پیش کرنا ایک عام فیشن بن گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
نیز امانت دار خزانچی کا اور اس شخص کا بیان جو عہدے کے خواہشمند کو عہدہ نہ دے
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ (میرے قبیلہ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہش مند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لفظ لن یا لفظ لا استعمال فرمایا)
حدیث حاشیہ:
لفظ ”اجارات“ اجارۃ کی جمع ہے۔ اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔ مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری ؒ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ں سے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔ اس سلسلہ میں امام بخاری ؒ نے آیت إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان ! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت شعیب ؑ نے پوچھا کہ تجھے کیو ں کر معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ ؑ نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔ حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔ اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔ اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گا اور اسی پر چلوں گا۔ حضرت موسیٰ ؑ کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب ؑ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔ اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب ؑ سے حضرت موسیٰ ؑ کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔ بہرحال امیر المحدثین امام بخاری ؒ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔ وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔ ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔ مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی ؒ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں: قال العلماء و الحکمة في أنه لا یولی من سأل الولایة أنه یوکل إلیها و لا تکون معه إعانة کما صرح به في حدیث عبدالرحمن بن سمرة السابق و إذا لم تکن معه إعانة لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لأن فیه تمهة للطالب و الحرص۔(نووي)یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔ اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔ علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔ حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری ؒ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔ خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:وَقد روى بن جَرِيرٍ مِنْ طَرِيقِ شُعَيْبٍ الْجَبَئِيِّ بِفَتْحِ الْجِيمِ وَالْمُوَحَّدَةِ بَعْدَهَا هَمْزَةٌ مَقْصُورًا أَنَّهُ قَالَ اسْمُ الْمَرْأَةِ الَّتِي تَزَوَّجَهَا مُوسَى صَفُورَةُ وَاسْمُ أُخْتِهَا ليا وَكَذَا روى من طَرِيق بن إِسْحَاقَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ اسْمُ أُخْتِهَا شرقا وَقِيلَ ليا وَقَالَ غَيْرُهُ إِنَّ اسْمَهُمَا صَفُورَا وعبرا وأنهما كَانَتَا توأما وَذكر بن جَرِيرٍ اخْتِلَافًا فِي أَنَّ أَبَاهُمَا هَلْ هُوَ شُعَيْب النَّبِي أَو بن أَخِيهِ أَوْ آخَرُ اسْمُهُ يثرُونَ أَوْ يثرَى أَقْوَالٌ لَمْ يُرَجِّحْ مِنْهَا شَيْئًا وَرُوِيَ مِنْ طَرِيقِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقوي الْأمين قَالَ قَوِيٌّ فِيمَا وُلِّيَ أَمِينٌ فِيمَا اسْتُوْدِعَ وروى من طَرِيق بن عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٍ فِي آخَرِينَ أَنَّ أَبَاهَا سَأَلَهَا عَمَّا رَأَتْ مِنْ قُوَّتِهِ وَأَمَانَتِهِ فَذَكَرَتْ قُوَّتَهُ فِي حَالِ السَّقْيِ وَأَمَانَتَهُ فِي غَضِّ طَرْفِهِ عَنْهَا وَقَوْلِهِ لَهَا امْشِي خَلْفِي وَدُلِّينِي عَلَى الطَّرِيقِ وَهَذَا أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَزَادَ فِيهِ فَزَوَّجَهُ وَأَقَامَ مُوسَى مَعَه يَكْفِيهِ وَيَعْمَلُ لَهُ فِي رِعَايَةِ غَنَمِهِ۔ ( فتح الباری ) دختر حضرت شعیب ؑ کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ ؑ نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام ”لیا“ تھا۔ بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔ اور بعض نے ”الیا“ اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔ اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی ( طاقتور ) ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔ اور امین ( امانت دار ) ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔ اور ابن عبا س ؓ اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔ تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔ اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ ؑ کو نظر آگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔ پس حضرت شعیب ؑ نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ ؑ سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ ؑ کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔ جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ ؑ نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔ اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ ؑ کو حضرت شعیب ؑ کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے:قال كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ طسم، حَتَّى إِذَا بَلَغَ قِصَّةَ مُوسَى، قَالَ: «إِنَّ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَرَ نَفْسَهُ ثَمَانِيَ سِنِينَ، أَوْ عَشْرًا، عَلَى عِفَّةِ فَرْجِهِ، وَطَعَامِ بَطْنِهِ» أخرجه ابن ماجة وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب ؑ کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔المجموع شرح المهذب للأستاذ المحقق محمد نجیب المطیعي میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الإجارة علی المنافع المباحة و الدلیل علیه قوله تعالیٰ فإن أرضعن لکم فأتوهن أجورهن۔(الجزءالرابع عشر، ص255)یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہاگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔ معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔ مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): I went to the Prophet (ﷺ) with two men from Ash-ari tribe. I said (to the Prophet), "I do not know that they want employment." The Prophet (ﷺ) said, "No, we do not appoint for our jobs anybody who demands it earnestly."