باب: اگر کوئی شخص کسی کو اس کام پر مقرر کرے کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کو درست کردے تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: To employ someone to repair a wall which is about to collapse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2267.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ دونوں (حضرت موسیٰ ؑ اور خضر ؑ) چلتے حتیٰ کہ جب ایک بستی پر آئے تو انھوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا۔ بستی والوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کیا تو انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔‘‘ راوی حدیث سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرکے بتایا کہ حضرت خضر ؑ نے ہاتھ اٹھایا تو دیوار کھڑی ہوگئی۔ ایک دوسرے راوی حضرت یعلی بن مسلم کے گمان کے مطابق حضرت سعید بن جبیر نے بتایا کہ انھوں نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا تو وہ کھڑی ہوگئی۔ (حضرت موسیٰ ؑ نے اس پر کہا:)’’اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے لیتے۔‘‘ راوی حدیث سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کی مراد اجرت تھی کہ ہم اسے کھاتے (استعمال میں لاتے)۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں بیان کیا تھا کہ ایسا اجارہ جائز ہے جس میں وقت کی تعیین تو ہو لیکن عمل کی وضاحت نہ ہو۔ اسی طرح اگر عمل کی تعیین ہو لیکن مدت مقرر نہ ہوتو ایسا جارہ بھی جائز ہے، شرعاً اور عرفاً اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اجارہ ہے۔ امام بخاری کا میلان اس کے جواز کی طرف ہے، اس کے لیے انھوں نے ایک قرآنی واقعے سے استدلال کیا ہے کہ عمل کاتعیین عقد اجارہ کے لیے ضروری اور شرط نہیں بلکہ الفاظ کے بجائے مقاصد کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وقت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ (2) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ قرآن میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، اس میں دیوار کو سیدھا کردینے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ آپ کو گاؤں والوں سے اس قسم کے کام کی اجرت لینی چاہیے تھی کیونکہ انھوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں کھانا نہیں کھلایا۔ بہر حال اس قسم کا اجارہ جائز ہے۔ شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک عقد اجارہ تعیینِ عمل سے منعقد ہوجاتا ہے جیسا کہ تعیین مدت سے اس کا عقد جائز ہے۔ (فتح الباري:563/4) (3) واضح رہے کہ سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہیں بشرطیکہ ان کا کوئی قاعدہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ مذکورہ استدلال کی بنیاد بھی اس اصول پر ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2195
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2267
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2267
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2267
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
اسی سے معماری یعنی مکان تعمیر کرنے کا پیشہ بھی ثابت ہوا اور یہ کہ معماری کا پیشہ حضرت خضرؑ کی سنت ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ دونوں (حضرت موسیٰ ؑ اور خضر ؑ) چلتے حتیٰ کہ جب ایک بستی پر آئے تو انھوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا۔ بستی والوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کیا تو انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔‘‘ راوی حدیث سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرکے بتایا کہ حضرت خضر ؑ نے ہاتھ اٹھایا تو دیوار کھڑی ہوگئی۔ ایک دوسرے راوی حضرت یعلی بن مسلم کے گمان کے مطابق حضرت سعید بن جبیر نے بتایا کہ انھوں نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا تو وہ کھڑی ہوگئی۔ (حضرت موسیٰ ؑ نے اس پر کہا:)’’اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے لیتے۔‘‘ راوی حدیث سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کی مراد اجرت تھی کہ ہم اسے کھاتے (استعمال میں لاتے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں بیان کیا تھا کہ ایسا اجارہ جائز ہے جس میں وقت کی تعیین تو ہو لیکن عمل کی وضاحت نہ ہو۔ اسی طرح اگر عمل کی تعیین ہو لیکن مدت مقرر نہ ہوتو ایسا جارہ بھی جائز ہے، شرعاً اور عرفاً اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اجارہ ہے۔ امام بخاری کا میلان اس کے جواز کی طرف ہے، اس کے لیے انھوں نے ایک قرآنی واقعے سے استدلال کیا ہے کہ عمل کاتعیین عقد اجارہ کے لیے ضروری اور شرط نہیں بلکہ الفاظ کے بجائے مقاصد کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وقت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ (2) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ قرآن میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، اس میں دیوار کو سیدھا کردینے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ آپ کو گاؤں والوں سے اس قسم کے کام کی اجرت لینی چاہیے تھی کیونکہ انھوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں کھانا نہیں کھلایا۔ بہر حال اس قسم کا اجارہ جائز ہے۔ شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک عقد اجارہ تعیینِ عمل سے منعقد ہوجاتا ہے جیسا کہ تعیین مدت سے اس کا عقد جائز ہے۔ (فتح الباري:563/4) (3) واضح رہے کہ سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہیں بشرطیکہ ان کا کوئی قاعدہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ مذکورہ استدلال کی بنیاد بھی اس اصول پر ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات (سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس ؓ نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب ؓ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں (موسیٰ اور خضر ؑ) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر ؑ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہوگئی۔ یعلی نے کہامیرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر ؑ نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہو گئی، تب موسیٰ ؑ بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ (حضرت موسیٰ ؑ کی مراد یہ تھی کہ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں ( آپ کو لینی چاہئیے تھی) جسے ہم کھا سکتے ( کیو ں کہ بستی والوں نے ان کو کو کھانا نہیں کھلایا تھا۔)
حدیث حاشیہ:
حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا یہ واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ اسی جگہ یہ دیوار کا واقعہ بھی ثابت ہے جو گرنے ہی والی تھی کہ حضرت خضر ؑ نے اس کو درست کر دیا۔ اسی سے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ حضرت خضر ؑ کو اس خدمت پر گاؤں والو ں سے مزدوری لینی چاہئے تھی کیوں کہ گاؤں والوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا حضرت خضر ؑ نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الہام الٰہی سے معلوم کر لیا تھا کہ یہ دیوار یتیم بچوں کی ہے اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن ہے۔ اس لیے اس کا سیدھا کرنا ضروری ہوا تاکہ یتیموں کی امداد بایں طور پر ہو سکے اور ان کا خزانہ ظاہر نہ ہو کہ لوگ لوٹ کر لے جائیں۔ آج 3صفر کو محترم حاجی عبدالرحمن سندی کے مکان واقع مجیدی مدینہ منور میں یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک محترم کو دونوں جہاں کی برکتیں عطا کرے۔ بہت ہی نیک مخلص اور کتاب و سنت کے دلدادہ ذی علم بزرگ ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا في الدارین ۔ امید ہے کہ قارئین بھی ان کے لیے دعائے خیر کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ubai bin Ka'b (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Both of them ( Moses (ؑ) and Al-Khadir) proceeded on till they reached a wall which was about to fall." Sa'd said, "(Al-Khadir pointed) with his hands (towards the wall) and then raised his hands and the wall became straightened up." Ya'la said, "I think Said said, 'He (Khadir) passed his hand over it and it was straightened up." ( Moses (ؑ) said to him), "if you had wanted, you could have taken wages for it." Said said, "Wages with which to buy food . " ________