Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: Employment up to the Asr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2269.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری مثال اور یہود ونصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے مزدوری کے لیے مزدور لگائے اور کہا: کون ہے جو دوپہر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ یہود نے ایک ایک قیراط پر کام کیا۔ ان کے بعد نصاریٰ نے ایک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگ ہو جو نماز عصر سےغروب آفتاب تک دو، قیراط پر کام کرتے ہو۔ یہود ونصاریٰ ناراض ہوئے اور کہنے لگے: ہمارا کام زیادہ ہے لیکن ہمیں مزدوری بہت تھوڑی ملی ہے۔ ارشاد ہوا کیا میں نے تمہارے حق میں کوتاہی کی ہے؟ انھوں نے کہا: ایسا ہرگز نہیں۔ فرمایا: یہ میرا فضل و احسان ہے میں جسے چاہوں دوں۔‘‘
تشریح:
(1) ہمیں قرآن وحدیث کی حفاظت واشاعت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس عظیم کارنامے کی بدولت اس امت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا اور یہود ونصاریٰ پر برتری عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو برقرار رکھنے کی توفیق دے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کئی ایک جگہ پر نقل کیا ہے اور اس سے مختلف احکام ومسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس حدیث میں یہودونصاریٰ اور اہل اسلام کا تقابل ایک تمثیلی انداز میں دکھایا گیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2197
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2269
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2269
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2269
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
یعنی عصر کی نماز شروع ہونے یا ختم ہونے تک۔ اب یہ استدلال صحیح نہ ہوگا کہ عصر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے۔ حافظ نے کہا دوسری روایت میں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے توحید میں نکالی ہے یوں ہے کہ ایسا کہنے والے صرف یہودی تھے۔ اور ان کا وقت مسلمانوں کے وقت سے زیادہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اسماعیلی نے کہا کہ اگر دونوں فرقوں نے یہ کہا ہو تب بھی حنفیہ کا استدلال چل نہیں سکتا۔ اس لیے کہ نصاریٰ نے اپنا عمل جو زیادہ قرار دیا وہ یہود کا زمانہ ملا کر ہے۔ کیوں کہ نصاری حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں پر ایمان لائے تھے۔ حافظ نے کہا ان تاویلات کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ظہر سے لے کر عصر تک کا زمانہ اس سے زیادہ ہوتا ہے جتنا عصر اور مغرب کے بیچ میں ہوتا ہے۔ ( وحیدی ) احادیث صحیحہ واردہ کی بنا پر عصر کا وقت سایہ ایک مثل کے برابر ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے۔ الحمد للہ آج بھی مکہ شریف اور مدینہ شریف میں یہی معمول ہے۔ ہر دو جگہ عصر کی نماز ایک مثل پر ہو رہی ہے۔ اور پوری دنیائے اسلام جو حج کے لیے لاکھوں کی تعداد میں حرمین شریفین آتی ہے ان ایام میں یہا ںاول وقت ہی عصر کی نماز پڑھتی ہے۔ پھر بعض متعصب احناف کا سختی کے ساتھ اس کا انکار کرنا اور ایک مثل پر عصر کی نماز کا پڑھنا ناروا جاننا انتہائی جمود کا ثبوت دینا ہے۔ اسی کو اندھی تقلید کہا گیا ہے۔ جس میں ہمارے یہ محترم و معزز متعصب بھائی گرفتار ہیں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کو برحق بھی کہتے ہیں اور عملی طور پر اس شدت کے ساتھ اس قول کا الٹ بھی کرتے ہیں۔ جب کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ ایک مثل پر عصر کی نماز کے قائل ہیں اور ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ میں ان اماموں کا بھی اہم مقام ہے۔ خلاصہ یہ کہ عصر کی نماز کا اول وقت ایک مثل سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں شک و بشہ کی مطلق گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل اپنے مقام پر گزر چکی ہے۔ الحمد للہ مدینہ طیبہ حرم نبوی میں یہ نوٹ لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ فللہ الحمد ولہ الشکر۔ یہ حدیث حضرت مجتہد مطلق امام الائمہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی جگہ نقل فرما کر اس سے مختلف مسائل کا اثبات فرمایا ہے۔ اس میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کا ایک تقابل تمثیلی طور پر دکھلایا گیا ہے۔ دین آسمانی کی امانت پہلے یہود کو سونپی گئی، مگر انہوں نے اپنے دین کو بدل کر مسخ کر دیا۔ اورباہمی حسد و بغض میں گرفتار ہو کر دین کی بربادی کے موجب ہوئے۔ اس طرح گویا انہوںنے حفاظت دین کا کام بالکل بیچ ہی میں چھوڑ دیا اور وہ ناکام ہو گئے۔ پھر نصاریٰ کا نمبر آیا اور ان کو اس دین کا محافظ بنایا گیا۔ مگر انہوں نے دین عیسوی کو اس قدر مسخ کیا کہ آسمانی تعلیمات کی اصلیت کو جڑ اوربنیادوں سے بدل دیا۔ اور تثلیث اور صلیب پرستی میں ایسے گرفتار ہوئے کہ یہود کو بھی مات کرکے رکھ دیا۔ ان کے بعد مسلمانوں کا نمبر آیا۔ اور اللہ پاک نے اس امت کو خیر امت قرار دیا۔ اور قرآن مجید اور سنت نبوی کو ان کے حوالہ کیا گیا۔ الحمد للہ قرآن مجید آج تک محفوظ ہے اور سنت کا ذخیرہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاتھوں اللہ نے قیامت تک کے لیے محفوظ کرا دیا۔ یہی کام کا پورا کرنا ہے جس پر امت کو دو گنا اجر ملے گا۔ مسلمانوں میں بھی اہل بدعت نے جو غلو اور افراط و تفریط سے کام لیا ہے وہ اگرچہ یہود و نصاریٰ سے بھی بڑھ کر شرمناک حرکت ہے کہ اللہ کے سچے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کے متعلق بے حد باطل اور گمراہ کن عقائد ایجاد کر لئے۔ اپنے خود ساختہ ائمہ کو مطاع مطلق کا درجہ دے دیا، اور پیروں، شہیدوں، بزرگوں کے مزارات کو کعبہ و قبلہ بنا لیا، یہ حرکتیں یہودو نصاریٰ سے کم نہیں ہیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ ایسے غالی اہل بدعت کے ہاتھوں قرآن مجید محفو ظ ہے۔ اور ذخیرہ سنت احادیث صحیحہ کی شکل میں محفوظ ہے۔ یہی وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا۔ اور یہود و نصاری پر فوقیت عطا فرمائی۔ اللہ پاک ہم کو اس فضیلت کا مصداق بنائے۔ آمین، سفر حج سے واپسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے 23 اپریل کو یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ والحمد للہ علی کل حال۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری مثال اور یہود ونصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے مزدوری کے لیے مزدور لگائے اور کہا: کون ہے جو دوپہر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ یہود نے ایک ایک قیراط پر کام کیا۔ ان کے بعد نصاریٰ نے ایک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگ ہو جو نماز عصر سےغروب آفتاب تک دو، قیراط پر کام کرتے ہو۔ یہود ونصاریٰ ناراض ہوئے اور کہنے لگے: ہمارا کام زیادہ ہے لیکن ہمیں مزدوری بہت تھوڑی ملی ہے۔ ارشاد ہوا کیا میں نے تمہارے حق میں کوتاہی کی ہے؟ انھوں نے کہا: ایسا ہرگز نہیں۔ فرمایا: یہ میرا فضل و احسان ہے میں جسے چاہوں دوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ہمیں قرآن وحدیث کی حفاظت واشاعت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس عظیم کارنامے کی بدولت اس امت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا اور یہود ونصاریٰ پر برتری عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو برقرار رکھنے کی توفیق دے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کئی ایک جگہ پر نقل کیا ہے اور اس سے مختلف احکام ومسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس حدیث میں یہودونصاریٰ اور اہل اسلام کا تقابل ایک تمثیلی انداز میں دکھایا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ کے غلام عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ ایک ایک قیراط پر آدھے دن تک میری مزدوری کون کرے گا؟ پس یہود نے ایک قیراط پر یہ مزدوری کی۔ پھر نصاریٰ نے بھی ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگوں نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط پر کام کیا۔ اس پر یہود و نصاریٰ غصہ ہو گئے کہ ہم نے تو زیادہ کام کیا اور مزدوری ہم کو کم ملی۔ اس شخص نے کہا کہ کیا میں نے تمہارا حق ذرہ برابر بھی مارا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں زیادہ دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں گو یہ صراحت نہیں کہ نصاریٰ نے عصر تک کام کیا، مگر یہ مضمون اس سے نکلتا ہے کہ تم مسلمانوں نے عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک کام کیا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا عمل نصاریٰ کے عمل کے بعد شروع ہوا ہوگا۔ اس میں امت محمدیہ کے خاتم الامم ہونے کا بھی اشارہ ہے اوریہ بھی کہ ثواب کے لحاظ سے یہ امت سابقہ جملہ امم پر فوقیت رکھتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar bin Al-Khattab (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Your example and the example of Jews and Christians is like the example of a man who employed some laborers to whom he said, 'Who will work for me up to midday for one Qirat each?' The Jews carried out the work for one Qirat each; and then the Christians carried out the work up to the 'Asr prayer for one Qirat each; and now you Muslims are working from the 'Asr prayer up to sunset for two Qirats each. The Jews and Christians got angry and said, 'We work more and are paid less.' The employer (Allah) asked them, 'Have I usurped some of your right?' They replied in the negative. He said, 'That is My Blessing, I bestow upon whomever I wish.' " ________