باب : اس امر کا بیان کہ مزدور کی مزدوری مار لینے کا گناہ کتنا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: The sin of him who withholds the wages of employee)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2270.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کےخلاف مدعی ہوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کے واسطے سے کسی کے ساتھ عہدوپیمان کیا، پھر عہد شکنی کا مرتکب ہوا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت ہڑپ کرگیا۔ تیسرا وہ جس نے کوئی مزدور رکھا، اس سے کام تو پورا لیا لیکن اسے اس کی مزدوری نہ دی۔‘‘
تشریح:
اصلاحی صاحب لکھتے ہیں: یہ حدیث تو لاکھوں کی ہے، الفاظ بہت پاکیزہ ہیں، بیان بھی پاکیزہ ہے، دل پسند معلوم ہوتی ہے لیکن بے محل ہے، شارحین بھی کہتے ہیں کہ اس روایت کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ امام بخاری ؒ کو روایات جمع کرنے کا موقع تو ملا لیکن ترتیب وتہذیب کا موقع بالکل نہ ملا اور لوگوں نے غیر مرتب حالت ہی میں صحیح بخاری کو روایت کرنا شروع کردیا۔ (تدبرحدیث:66/1) اصلاحی صاحب کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کتاب مرتب کرنے کے بعد مدت دراز تک اپنے تلامذہ کو پڑھاتے رہے ہیں، دراصل امام بخاری ؒ ایک نکتے کی خاطر اسے درمیان میں لائے ہیں۔ وہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے تھوڑا تھوڑا عمل ہوتا جائے ایسے اجرت بھی تھوڑی تھوڑی دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ عادت یہ ہے کہ مزدور اپنی اجرت پورا دن یا مہینہ گزرنے کے بعد طلب کرتا ہے لیکن اسے حق پہنچتا ہے کہ دن کے پورا ہونے سے پہلے مطالبہ کرے، مالک کو چاہیے کہ وہ اس کے کام کی مزدوری دے اور اسے نہ روکے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2198
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2270
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2270
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2270
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کےخلاف مدعی ہوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کے واسطے سے کسی کے ساتھ عہدوپیمان کیا، پھر عہد شکنی کا مرتکب ہوا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت ہڑپ کرگیا۔ تیسرا وہ جس نے کوئی مزدور رکھا، اس سے کام تو پورا لیا لیکن اسے اس کی مزدوری نہ دی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اصلاحی صاحب لکھتے ہیں: یہ حدیث تو لاکھوں کی ہے، الفاظ بہت پاکیزہ ہیں، بیان بھی پاکیزہ ہے، دل پسند معلوم ہوتی ہے لیکن بے محل ہے، شارحین بھی کہتے ہیں کہ اس روایت کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ امام بخاری ؒ کو روایات جمع کرنے کا موقع تو ملا لیکن ترتیب وتہذیب کا موقع بالکل نہ ملا اور لوگوں نے غیر مرتب حالت ہی میں صحیح بخاری کو روایت کرنا شروع کردیا۔ (تدبرحدیث:66/1) اصلاحی صاحب کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کتاب مرتب کرنے کے بعد مدت دراز تک اپنے تلامذہ کو پڑھاتے رہے ہیں، دراصل امام بخاری ؒ ایک نکتے کی خاطر اسے درمیان میں لائے ہیں۔ وہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے تھوڑا تھوڑا عمل ہوتا جائے ایسے اجرت بھی تھوڑی تھوڑی دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ عادت یہ ہے کہ مزدور اپنی اجرت پورا دن یا مہینہ گزرنے کے بعد طلب کرتا ہے لیکن اسے حق پہنچتا ہے کہ دن کے پورا ہونے سے پہلے مطالبہ کرے، مالک کو چاہیے کہ وہ اس کے کام کی مزدوری دے اور اسے نہ روکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یوسف بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سلیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن امیہ نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا، اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر کام تو اس سے پورا لیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اکثر مقامات پر اوصاف اہل ایمان بیان کرتے ہوئے ایفائے عہد کا وصف نمایاں بیان کیا ہے پھر جو وعدہ اور قسم اللہ تعالیٰ کا پاک نام درمیان میں ڈال کر کیا جائے، اس کا توڑنا اور پورا نہ کرنا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔ جس کے لیے قیامت کے دن خود اللہ پاک مدعی بنے گا اور وہ غدار بندہ مدعی علیہ ہوگا۔ جس کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ اور وہ محض اس عظیم جرم کی بناء پر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ اس لیے ایک حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔ جس کے ساتھ اگر آدمی خیانت کا بھی عادی ہو اور جھوٹ بھی اس کی گھٹی میں داخل ہو تو پھر وہ از روئے شرع محمدی پکا منافق شمار کیا جاتاہے۔ اور نور ایمان سے اس کا دل قطعاً خالی ہو جاتا ہے۔ دوسرا جرم کسی آزاد آدمی کو غلام بنا کر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانا اس میں نمبروار تین جرم شامل ہیں۔ اول تو کسی آزاد کو غلام بنانا ہی جرم ہے پھر اسے ناحق بیچنا جرم، پھر اس کی قیمت کھانا۔ یہ اور بھی ڈبل جرم ہے۔ ایسا ظالم انسان بھی وہ ہے جس پر قیامت کے دن اللہ پاک خود مدی بن کر کھڑا ہوگا۔ تیسرا مجرم جس نے کسی مزدور سے پورا پورا کام کرایا مگر مزدوری ادا کرتے وقت اس کو دھتکار دیا اور وہ غریب کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔ یہ بھی بہت ہی بڑا ظلم ہے۔ حکم یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے۔ سرمایہ داروں کے ایسے ہی پے در پے مظالم نے مزدوروں کی تنظیم کو جنم دیا ہے جو آج ہر ملک میں مستحکم بنیادوں پر قائم اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اسلام نے ایک زمانہ قبل ہی اس قسم کے مفاسد کے خلاف آواز بلند کی تھی، جو اسلام کے مزدور اور غریب پرور ہونے کی اٹل دلیل ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah said, 'I will be an opponent to three types of people on the Day of Resurrection: 1. One who makes a covenant in My Name, but proves treacherous; 2. One who sells a free person and eats his price; and 3. One who employs a laborer and takes full work from him but does not pay him for his lab our.' " ________