Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: Employment from Asr till night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2271.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمانوں، یہود اور نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ لوگوں کو کام پر لگایا کہ وہ دن سے رات تک کام کریں انھیں طے شدہ مزدوری دی جائے گی، انھوں نے آدھا دن اس کا کام کیا پھر بولے کہ جو مزدوری آپ نے ٹھہرائی تھی وہ ہمیں نہیں چاہیے اور جو کچھ ہم نے کیا وہ سب باطل اور ضائع ہے۔ اس شخص نے ان سے کہا: ایسا نہ کرو بلکہ اپنا کام پورا کرواور اپنی مزدوری پوری لو۔ وہ نہ مانے اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے بعد اس شخص نے دوسرے مزدور رکھے اور ان سے کہا: بقیہ کام باقی دن میں پورا کرو اور تمھیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے پہلے لوگوں سے طے کی تھی۔ انھوں نے کام کیا۔ جب عصر کا وقت ہوا تو انھوں نے کہاکہ اب تک ہم نے جو کام کیا ہے وہ باطل اورضائع ٹھہرا اور وہ مزدوری جس پر آپ نے ہمیں کام پر لگایا تھا اسے اپنے پاس رکھو۔ اس شخص نے ان سے بھی کہا تم باقی دن پورا کرلو کیونکہ تھوڑا سا دن باقی رہ گیا ہے لیکن انھوں نے انکار کردیاچنانچہ باقی دن کے لیے اس شخص نے کچھ اور لوگوں کو کام پر لگایا۔ انھوں نے باقی دن کام کیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اس طرح انھوں نے پوری مزدوری پہلے اور دوسرے مزدوروں کی بھی پائی۔ چنانچہ یہ مثال ہے ان (یہودونصاریٰ)کی (جنھوں نے اس نور کو چھوڑدیا) اور مثال ہے ان (مسلمانوں) کی جنھوں نے اس نور کو قبول کیا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں یہودو نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ نے وحی الہٰی کا نور پھیلانے میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام اور مزدوری چھوڑ کر بھاگ نکلے، البتہ اہل اسلام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور اسوۂ رسول دونوں محفوظ ہیں اور جب تک اللہ چاہے گا وہ دونوں محفوظ رہیں گے۔ (2) اس تمثیل اور حضرت ابن عمر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی مثال میں کچھ فرق ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ واقعات ہیں کیونکہ ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق مالک نے صبح سے دوپہر تک یہودیوں کو اور دوپہر سے عصر تک عیسائیوں کو مزدور رکھا جبکہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ مالک نے انھیں دن بھر کے لیے ایک مقررہ اجرت پر کام کرنے کے لیے رکھا، اسی طرح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ نے کچھ مزدوری نہیں لی جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے ایک، ایک قیراط پر کام کیا اور اپنی اپنی مزدوری لے کر چلے گئے۔ (3) دراصل مزدوری چھوڑنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بعد میں آنے والے نبی کے زمانے کو پایا لیکن اسے ماننے سے انکار کردیا اور مزدوری لینے والے وہ لوگ ہیں جو بعد میں آنے والے نبی سے پہلے فوت ہوگئے اور سابقہ شریعت منسوخ ہونے سے پہلے تک زندہ رہے۔ (4) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جز وقتی کام کےلیے مزدور رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ پورے دن کی مزدوری پر کسی کو رکھا جائے۔ ان مثالوں سے غرض یہ ہے کہ اس امت کے اعمال کا ثواب دوسری امتوں کے اعتبار سے زیادہ ہے اور دوسری مثال اس لیے ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے، ان کے پہلے دین میں کیے ہوئے اعمال بھی بے کار ہیں، انھیں ان کا کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2199
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2271
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2271
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2271
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمانوں، یہود اور نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ لوگوں کو کام پر لگایا کہ وہ دن سے رات تک کام کریں انھیں طے شدہ مزدوری دی جائے گی، انھوں نے آدھا دن اس کا کام کیا پھر بولے کہ جو مزدوری آپ نے ٹھہرائی تھی وہ ہمیں نہیں چاہیے اور جو کچھ ہم نے کیا وہ سب باطل اور ضائع ہے۔ اس شخص نے ان سے کہا: ایسا نہ کرو بلکہ اپنا کام پورا کرواور اپنی مزدوری پوری لو۔ وہ نہ مانے اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے بعد اس شخص نے دوسرے مزدور رکھے اور ان سے کہا: بقیہ کام باقی دن میں پورا کرو اور تمھیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے پہلے لوگوں سے طے کی تھی۔ انھوں نے کام کیا۔ جب عصر کا وقت ہوا تو انھوں نے کہاکہ اب تک ہم نے جو کام کیا ہے وہ باطل اورضائع ٹھہرا اور وہ مزدوری جس پر آپ نے ہمیں کام پر لگایا تھا اسے اپنے پاس رکھو۔ اس شخص نے ان سے بھی کہا تم باقی دن پورا کرلو کیونکہ تھوڑا سا دن باقی رہ گیا ہے لیکن انھوں نے انکار کردیاچنانچہ باقی دن کے لیے اس شخص نے کچھ اور لوگوں کو کام پر لگایا۔ انھوں نے باقی دن کام کیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اس طرح انھوں نے پوری مزدوری پہلے اور دوسرے مزدوروں کی بھی پائی۔ چنانچہ یہ مثال ہے ان (یہودونصاریٰ)کی (جنھوں نے اس نور کو چھوڑدیا) اور مثال ہے ان (مسلمانوں) کی جنھوں نے اس نور کو قبول کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں یہودو نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ نے وحی الہٰی کا نور پھیلانے میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام اور مزدوری چھوڑ کر بھاگ نکلے، البتہ اہل اسلام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور اسوۂ رسول دونوں محفوظ ہیں اور جب تک اللہ چاہے گا وہ دونوں محفوظ رہیں گے۔ (2) اس تمثیل اور حضرت ابن عمر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی مثال میں کچھ فرق ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ واقعات ہیں کیونکہ ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق مالک نے صبح سے دوپہر تک یہودیوں کو اور دوپہر سے عصر تک عیسائیوں کو مزدور رکھا جبکہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ مالک نے انھیں دن بھر کے لیے ایک مقررہ اجرت پر کام کرنے کے لیے رکھا، اسی طرح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ نے کچھ مزدوری نہیں لی جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے ایک، ایک قیراط پر کام کیا اور اپنی اپنی مزدوری لے کر چلے گئے۔ (3) دراصل مزدوری چھوڑنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بعد میں آنے والے نبی کے زمانے کو پایا لیکن اسے ماننے سے انکار کردیا اور مزدوری لینے والے وہ لوگ ہیں جو بعد میں آنے والے نبی سے پہلے فوت ہوگئے اور سابقہ شریعت منسوخ ہونے سے پہلے تک زندہ رہے۔ (4) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جز وقتی کام کےلیے مزدور رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ پورے دن کی مزدوری پر کسی کو رکھا جائے۔ ان مثالوں سے غرض یہ ہے کہ اس امت کے اعمال کا ثواب دوسری امتوں کے اعتبار سے زیادہ ہے اور دوسری مثال اس لیے ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے، ان کے پہلے دین میں کیے ہوئے اعمال بھی بے کار ہیں، انھیں ان کا کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسی اشعری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند آدمیوں کو مزدور کیا کہ یہ سب اس کا ایک کام صبح سے رات تک مقررہ اجرت پر کریں۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے یہ کام دوپہر تک کیا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری اس مزدوری کی ضرورت نہیں ہے جو تم نے ہم سے طے کی ہے بلکہ جو کام ہم نے کر دیا وہ بھی غلط رہا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اپنا کام پورا کرلو اور اپنی پوری مزدوری لے جاؤ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر اس نے دوسرے مزدور لگائے اور ان سے کہا کہ باقی دن پورا کرلو تو میں تمہیں وہی مزدوری دوں گا جو پہلے مزدوروں سے طے کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کام شروع کیا، لیکن عصر کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے جو تمہارا کام کر دیا ہے وہ بالکل بیکار رہا۔ وہ مزدوری بھی تم اپنے ہی پاس رکھو جو تم نے ہم سے طے کی تھی۔ اس شخص نے ان کو سمجھایا کہ اپنا باقی کام پورا کرلو۔ دن بھی اب تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ نہ مانے، آخر اس شخص نے دوسرے مزدور لگائے کہ یہ دن کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس میں یہ کام کردیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے سورج غروب ہونے تک دن کے بقیہ حصہ میں کام پورا کیا اور پہلے اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی سب ان ہی کو ملی۔ تو مسلمانوں کی اور اس نور کی جس کو انہوں نے قبول کیا، یہی مثال ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ بظاہر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث کے خلاف ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ اس نے صبح سے لے کر دوپہر تک کے لیے مزدور لگائے تھے۔ اور یہ درحقیقت دو الگ الگ قصے ہیں۔ لہٰذا باہمی طور پر دونوں حدیثوں میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی شرعی ذمہ داریو ں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام چھوڑ کر بھاگ نکلے مگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ قرآن مجید آج تک لفظ بہ لفظ موجود ہے اور جب تک اللہ چاہے گا موجود رہے گا۔ جس میں ایک شوشے کی بھی رد و بدل نہیں ہوئی اور قرآن مجید کے ساتھ اسوہ رسالت بھی پورے طور پر محفوظ ہے۔ اس طور پر کہ انبیاءسابقہ میں ایسی مثال ملنی ناممکن ہے کہ ان کی زندگی اور ان کی ہدایات کو بایں طور پر محفوظ رکھا گیا ہو۔ حدیث مذکور کے آخری الفاظ سے بعضوں نے نکالا کہ اس امت کی بقا ہزار برس سے زیادہ رہے گی اور الحمد للہ یہ امر اب پورا ہو رہا ہے کہ امت محمدیہ پر چودھویں صدی پوری ہونے والی ہے اور مسلمان دنیا میں آج بھی کروڑہا کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس دنیا کی عمر کتنی ہے یا یہ کہ امت مسلمہ کتنی عمر لے کر آئی ہے، شریعت اسلامیہ نے ان باتوں کو علم الٰہی پر موقوف رکھا ہے۔ اتنا ضرور بتلایا گیا ہے کہ امت مسلمہ سے قبل جو بھی انسانی دور گزر چکا ہے وہ مدت کے لحاظ سے ایسا ہے جیسا کہ فجر سے عصر تک کا وقت ہے۔ اور امت مسلمہ کا دور ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے گویا اب عصر سے دن کا باقی حصہ شروع ہورہاہے۔ اس لیے اس امت کو آخری امت اور اس دین کو آخری دین اور قرآن مجید کو آخری کتاب اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی و خاتم الرسل کہا گیا ہے۔ اب علم الٰہی میں دنیا کی عمر کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے آخر تک یہی دین آسمانی رہے گا۔ یہی شریعت آسمانی رہے گی اوراس کے خلاف جو بھی مدعی ہو وہ خواہ اسلام کا ہی دعوے دار کیوں نہ ہو وہ کذاب، مکار، دجال سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ایسے دجاجلہ کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ نظر ثانی میں یہ نوٹ حرم نبوی کے نزدیک مدینہ المنورہ میں حوالہ قلم کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The example of Muslims, Jews and Christians is like the example of a man who employed laborers to work for him from morning till night for specific wages. They worked till midday and then said, 'We do not need your money which you have fixed for us and let whatever we have done be annulled.' The man said to them, 'Don't quit the work, but complete the rest of it and take your full wages.' But they refused and went away. The man employed another batch after them and said to them, 'Complete the rest of the day and yours will be the wages I had fixed for the first batch.' So, they worked till the time of 'Asr prayer. Then they said, "Let what we have done be annulled and keep the wages you have promised us for yourself.' The man said to them, 'Complete the rest of the work, as only a little of the day remains,' but they refused. Thereafter he employed another batch to work for the rest of the day and they worked for the rest of the day till the sunset, and they received the wages of the two former batches. So, that was the example of those people (Muslims) and the example of this light (guidance) which they have accepted willingly. ________