باب : جس نے اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کی یعنی حمالی کی اور پھر اسے صدقہ کر دیا اور حمال کی اجرت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: To employ himself to carry loads, and the wages of porters)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2273.
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب صدقہ وخیرات کرنے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی شخص بازار جاتا اور باربرداری کرکے (بوجھ اٹھا کر) ایک مدغلہ حاصل کرتا (اور اسے صدقہ کرتا) جبکہ آج ان میں سے بعض لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔ راوی حدیث(حضرت شقیق) کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حضرت ابو مسعود انصاری ؓ نے "بعض" سے مراد خود ہی کو لیا ہے۔
تشریح:
(1) بار برادری کرکے مزدوری کرنے میں انسان کی توہین نہیں بلکہ بوجھ اٹھالینا سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے۔ جس طرح کام کاج اور مزدوری چھوڑ دینا سوال کرنے کی ذلت کا باعث ہے، اسی طرح صدقہ وخیرات ترک کرنا اخروی افلاس اور ذلت کا باعث بنتا ہے۔ ایک حدیث میں بہتریں صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ انسان اس کے بعد خود محتاج نہ بن جائے بلکہ غنی رہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1426) اس حدیث سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ وہ مال دار آدمی کرے جس کی رقم ضروریات سے زائد ہو اور جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ صدقہ وخیرات نہ کرے۔ امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ دور اول میں صحابۂ کرام ؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیرات کرنے کا حکم دیتے تو وہ منڈی جاتے اور بار برادری کرکے کچھ غلہ حاصل کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ (2)صحابۂ کرام ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کتنا جذبہ رکھتے تھے! لیکن افسوس کے آج لاکھوں رکھنے والے صدقہ وخیرات کا خیال ہی نہیں کرتے۔ صحابۂ کرام مزدوری اس لیے کرتے تھے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یقیناً یہ وہ انفاق ہے جس سے دل میں نور حکمت پیدا ہوتا ہے جو بہت بڑا خزانہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2201
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2273
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2273
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2273
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب صدقہ وخیرات کرنے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی شخص بازار جاتا اور باربرداری کرکے (بوجھ اٹھا کر) ایک مدغلہ حاصل کرتا (اور اسے صدقہ کرتا) جبکہ آج ان میں سے بعض لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔ راوی حدیث(حضرت شقیق) کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حضرت ابو مسعود انصاری ؓ نے "بعض" سے مراد خود ہی کو لیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بار برادری کرکے مزدوری کرنے میں انسان کی توہین نہیں بلکہ بوجھ اٹھالینا سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے۔ جس طرح کام کاج اور مزدوری چھوڑ دینا سوال کرنے کی ذلت کا باعث ہے، اسی طرح صدقہ وخیرات ترک کرنا اخروی افلاس اور ذلت کا باعث بنتا ہے۔ ایک حدیث میں بہتریں صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ انسان اس کے بعد خود محتاج نہ بن جائے بلکہ غنی رہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1426) اس حدیث سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ وہ مال دار آدمی کرے جس کی رقم ضروریات سے زائد ہو اور جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ صدقہ وخیرات نہ کرے۔ امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ دور اول میں صحابۂ کرام ؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیرات کرنے کا حکم دیتے تو وہ منڈی جاتے اور بار برادری کرکے کچھ غلہ حاصل کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ (2)صحابۂ کرام ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کتنا جذبہ رکھتے تھے! لیکن افسوس کے آج لاکھوں رکھنے والے صدقہ وخیرات کا خیال ہی نہیں کرتے۔ صحابۂ کرام مزدوری اس لیے کرتے تھے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یقیناً یہ وہ انفاق ہے جس سے دل میں نور حکمت پیدا ہوتا ہے جو بہت بڑا خزانہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ (یحییٰ بن سعید قریش) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شفیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو بعض لوگ بازاروں میں جاکر بوجھ اٹھاتے جن سے ایک مدمزدوری ملتی (وہ اس میں سے بھی صدقہ کرتے) آج ان میں سے کسی کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔ شفیق نے کہا ہمارا خیال ہے کہ ابومسعود ؓ نے کسی سے اپنے ہی تیئں مراد لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ کرام ؓ محنت مزدوری بخوشی کیا کرتے تھے۔ حتی کہ وہ حمالی بھی کرتے پھر جو مزدوری ملتی اس میں سے صدقہ بھی کرتے۔ اللہ پاک ان کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے کہ اس محنت سے انہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی، آج الحمد للہ وہی مدینہ ہے جن کے باشندے فراخی اور کشادگی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ آج مدینہ میں کتنے ہی عظیم محلات موجود ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu May' id Al-Ansari (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) ordered us to give in charity we would go to the market and work as porters to earn a Mudd (two hand-fulls) (of foodstuff) but now some of us have one-hundred thousand Dirhams or Diners. (The sub-narrator) Shaqiq said, "I think Abu Mas'ud (RA) meant himself by saying (some of us) . ________