مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن سیرین اور عطاءاور ابراہیم اور حسن بصری دلالی پر اجرت لینے میں کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر کسی سے کہا جائے کہ یہ کپڑا اتنی قیمت میں بیچ لا۔ جتنا زیادہ ہو وہ تمہارا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اتنے میں بیچ لا، جتنا نفع ہوگا وہ تمہار ہے یا ( یہ کہا کہ ) میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے۔ تشریح : ابن سیرین اور ابراہیم کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا اور حسن کے قول کو نہ حافظ نے بیان کیا نہ قسطلانی نے کہ کس نے وصل کیا۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا عطا سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، جمہور علماءنے اس کو جائز نہیں رکھا۔ کیوں کہ اس میں دلالی کی اجرت مجہول ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو اس وجہ سے جائز رکھا ہے کہ یہ ایک مضاربت کی صورت ہے۔ ابن سیرین کے اس دوسرے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے فرمان رسالت المسلمون عند شروطہم کو اسحاق نے اپنی مسند میں عمرو بن عوف مزنی سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابوداؤد اور احمد اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ( وحیدی ) سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو ایک تاریخ سامنے آگئی۔ اس لیے کہ حرم نبوی مدینہ طیبہ میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر بیٹھ کر یہ چند حروف لکھ رہا ہوں۔ یہی وہ چبوترہ ہے جہاں اصحاب صفہ بھوکے پیاسے علوم رسالت حاصل کرنے کے لیے پروانہ وار قیام فرمایا کرتے تھے۔ اسی چبوترہ کی تعلیم و تربیت سے حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے فاضل اسلام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک ان سب کو ہماری طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے۔ ان کی قبرو ںکو نور سے بھر دے۔ وہی اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے جہاں آج شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہے۔ غالیچوں پر غالیچے بچھے ہوئے ہیں، ہر وقت عطر سے فضا معطر رہتی ہے۔ کتنے ہی بندگان خدا اس چبوترہ پر تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ الحمد للہ میں ناچیز عاجز گنہگار اس چبوترہ میں بیٹھ کر بخاری شریف کا متن پڑھ رہا ہوں اور ترجمہ و تشریحات لکھ رہا ہوں۔ اس امید پر کہ قیامت کے دن اللہ پاک میرا حشر بھی اپنے ان نیک بندوں کے ساتھ کرے اور ان کے جوار میں فردوس بریں میں جگہ دے۔ مجھ کو میری آل اولاد کواورجملہ معاونین اشاعت بخاری شریف کو اللہ پاک یہ درجات نصیب فرمائے اورلواءالحمد کے نیچے حشر فرمائے۔ آج 2 صفر 1390ھ کو حرم نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر یہ چند لفظ لکھے گئے۔
2274.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے اس امر سے منع فرمایا ہے کہ بازار میں مال تجارت لانے والوں سے آگے بڑھ کر معاملہ طے کیا جائے۔ اور فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ فروخت کرے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال فروخت نہ کرے اس کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا دلال نہ بنے۔
تشریح:
(1) آج کل ہمارے ہاں کسی کارخانے یا فرم کا مال ایجنٹ بن کر فروخت کیا جاتا ہے، بڑے بڑے کاروبار اسی طرز پر چلتے ہیں۔ طے شدہ کمیشن پر ایسا کرنا جائز ہے۔صارفین کےلیے اس میں آسانی ہے۔ اگر کسی نے جائیداد خریدنی یا فروخت کرنی ہو تو اسے ڈیلر حضرات کے ذریعے سے فروخت کیا یا خریدا جاسکتا ہے، ان کا کمیشن فیصد کے حساب سے طے ہوتا ہے۔ ڈیلر حضرات کےلیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام نہ لیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ (2) اس حدیث میں دیہات سے مال لانے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے اور ان سے معاملہ طے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ یہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ شہری آدمی دیہات سے مال لانے والے کو بازار کے نرخ سے بے خبر رکھے۔ ایسا کرنے سے بازار والوں کے لیے بھی نقصان کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔ اگر بازار کے ریٹ پر، دوسرے خریداروں پر اور بازار والوں پر ایسا کرنے سے کوئی غلط اثر یا دباؤ نہیں پڑتا تو اس طریقے سے کسی دوسرے کاایجنٹ بن کر مال خریدا جاسکتا ہے اور اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے، دونوں طرف سے کمیشن وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) چیز فروخت کرنے کے بعد ایجنٹ حضرات سبزی یا پھلوں سے اپنی پسند کی سبزی یا پھل لے لیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ صرف طے شدہ کمیشن کے حق دار ہیں جو انھوں نے وصول کرلیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2202
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2274
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2274
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2274
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
امام ابن سیرین،حضرت عطاء اور حضرت ابراہیم نخعی کے اقوال کو مصنف ابن ابی شیبہ (7/531) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے،اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کو بھی مصنف ابن ابی شیبہ(7/213) میں موصولاً روایت کیا گیا ہے۔ابن سیرین رحمہ اللہ کے دوسرے اثر کو بھی ابن ابی شیبہ میں مختلف الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:7/213) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کسی مقام پر متصل سند سے بیان نہیں کیا ہے،البتہ امام اسحاق نے اپنی مسند میں اسے ذکر کیا ہے۔اس میں یہ اضافہ ہے کہ ایسی شرط نہ ہو جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کردے۔اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب دلالی طے کرلی جائے تو دلال اور سامان کے مالک کو اپنی شرائط پر قائم رہنا چاہیے۔( فتح الباری:4/570)
اور ابن سیرین اور عطاءاور ابراہیم اور حسن بصری دلالی پر اجرت لینے میں کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر کسی سے کہا جائے کہ یہ کپڑا اتنی قیمت میں بیچ لا۔ جتنا زیادہ ہو وہ تمہارا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اتنے میں بیچ لا، جتنا نفع ہوگا وہ تمہار ہے یا ( یہ کہا کہ ) میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے۔ تشریح : ابن سیرین اور ابراہیم کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا اور حسن کے قول کو نہ حافظ نے بیان کیا نہ قسطلانی نے کہ کس نے وصل کیا۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا عطا سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، جمہور علماءنے اس کو جائز نہیں رکھا۔ کیوں کہ اس میں دلالی کی اجرت مجہول ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو اس وجہ سے جائز رکھا ہے کہ یہ ایک مضاربت کی صورت ہے۔ ابن سیرین کے اس دوسرے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے فرمان رسالت المسلمون عند شروطہم کو اسحاق نے اپنی مسند میں عمرو بن عوف مزنی سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابوداؤد اور احمد اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ( وحیدی ) سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو ایک تاریخ سامنے آگئی۔ اس لیے کہ حرم نبوی مدینہ طیبہ میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر بیٹھ کر یہ چند حروف لکھ رہا ہوں۔ یہی وہ چبوترہ ہے جہاں اصحاب صفہ بھوکے پیاسے علوم رسالت حاصل کرنے کے لیے پروانہ وار قیام فرمایا کرتے تھے۔ اسی چبوترہ کی تعلیم و تربیت سے حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے فاضل اسلام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک ان سب کو ہماری طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے۔ ان کی قبرو ںکو نور سے بھر دے۔ وہی اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے جہاں آج شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہے۔ غالیچوں پر غالیچے بچھے ہوئے ہیں، ہر وقت عطر سے فضا معطر رہتی ہے۔ کتنے ہی بندگان خدا اس چبوترہ پر تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ الحمد للہ میں ناچیز عاجز گنہگار اس چبوترہ میں بیٹھ کر بخاری شریف کا متن پڑھ رہا ہوں اور ترجمہ و تشریحات لکھ رہا ہوں۔ اس امید پر کہ قیامت کے دن اللہ پاک میرا حشر بھی اپنے ان نیک بندوں کے ساتھ کرے اور ان کے جوار میں فردوس بریں میں جگہ دے۔ مجھ کو میری آل اولاد کواورجملہ معاونین اشاعت بخاری شریف کو اللہ پاک یہ درجات نصیب فرمائے اورلواءالحمد کے نیچے حشر فرمائے۔ آج 2 صفر 1390ھ کو حرم نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر یہ چند لفظ لکھے گئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے اس امر سے منع فرمایا ہے کہ بازار میں مال تجارت لانے والوں سے آگے بڑھ کر معاملہ طے کیا جائے۔ اور فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ فروخت کرے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال فروخت نہ کرے اس کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا دلال نہ بنے۔
حدیث حاشیہ:
(1) آج کل ہمارے ہاں کسی کارخانے یا فرم کا مال ایجنٹ بن کر فروخت کیا جاتا ہے، بڑے بڑے کاروبار اسی طرز پر چلتے ہیں۔ طے شدہ کمیشن پر ایسا کرنا جائز ہے۔صارفین کےلیے اس میں آسانی ہے۔ اگر کسی نے جائیداد خریدنی یا فروخت کرنی ہو تو اسے ڈیلر حضرات کے ذریعے سے فروخت کیا یا خریدا جاسکتا ہے، ان کا کمیشن فیصد کے حساب سے طے ہوتا ہے۔ ڈیلر حضرات کےلیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام نہ لیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ (2) اس حدیث میں دیہات سے مال لانے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے اور ان سے معاملہ طے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ یہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ شہری آدمی دیہات سے مال لانے والے کو بازار کے نرخ سے بے خبر رکھے۔ ایسا کرنے سے بازار والوں کے لیے بھی نقصان کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔ اگر بازار کے ریٹ پر، دوسرے خریداروں پر اور بازار والوں پر ایسا کرنے سے کوئی غلط اثر یا دباؤ نہیں پڑتا تو اس طریقے سے کسی دوسرے کاایجنٹ بن کر مال خریدا جاسکتا ہے اور اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے، دونوں طرف سے کمیشن وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) چیز فروخت کرنے کے بعد ایجنٹ حضرات سبزی یا پھلوں سے اپنی پسند کی سبزی یا پھل لے لیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ صرف طے شدہ کمیشن کے حق دار ہیں جو انھوں نے وصول کرلیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
امام ابن سیرین، حضرت عطاء ابراہیم نخعی اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ دلالی کی اجرت میں کوئی قباحت نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ جاؤ یہ کپڑا اتنے میں فروخت کردو اور اس(مقررہ قیمت) سے زیادہ جو نفع ہو وہ تمہارا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی خرابی نہیں کہ اگر کوئی دوسرے سے کہتا ہے کہ فلاں چیز اتنے میں فروخت کردو اور جو نفع ہو وہ تمہارا یا میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے (تجارتی) قافلوں سے (منڈی سے آگے جاکر) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس ؓ ! ”شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Tawus (RA): Ibn 'Abbas (RA) said, "The Prophet (ﷺ) forbade the meeting of caravans (on the way) and ordained that no townsman is permitted to sell things on behalf of a bedouin." I asked Ibn 'Abbas (RA), "What is the meaning of his saying, 'No townsman is permitted to sell things on behalf of a bedouin.' " He replied, "He should not work as a broker for him." ________