باب : اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مرجائے
)
Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: If somebody rents land and he or the owner dies)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن سیرین نے کہا کہ زمین والے بغیر مدت پوری ہوئے ٹھیکہ دار کو ( یا اس کے وارثوں کو ) بے دخل نہیں کر سکتے۔ اور حکم، حسن اور ایاس بن معاویہ نے کہا اجارہ مدت ختم ہونے تک باقی رہے گا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہاآنحضرت ﷺنے خیبر کا اجارہ آدھوں آدھ بٹائی پر یہودیوں کو دیا تھا۔ پھر یہی ٹھیکہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانہ تک رہا۔ اور حضرت عمر ؓکے بھی شروع خلافت میں۔ اور کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نیا ٹھیکہ کیا ہو۔
2286.
حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے زرعی اراضی کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبید اللہ نے اس روایت کو حضرت نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے۔ تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔
تشریح:
(1) مؤجر اور مستأجر دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے اجارے کی فسخ ہوجانے یا عدم فسخ کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کا مرجانا،فسخ اجارہ کے لیے دلیل نہیں ہے، تاہم علمائے کوفہ کے نزدیک ایسا اجارہ فسخ ہوجاتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے کہ ایسے حالات میں اجارہ فسخ نہیں ہوگا، جمہور کا یہی موقف ہے جسے انھوں نے اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:583/4) (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت کئی ایک روایات ذکر کی ہیں: پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زرعی اراضی پر یہود کو مقرر کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک مقررہ کرائے پر زرعی اراضی ٹھیکے پر دی جاتی تھیں۔ تیسری روایت حضرت رافع بن خدیج کی ہے کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا منع ہے۔ چوتھی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کیا تھا۔ خیبر کی زمین کو بٹائی پر دینے کے متعلق حضرت نافع سے دوراوی بیان کرتے ہیں: ایک حضرت جویریہ بن اسماء اور دوسرےحضرت عبیداللہ۔ حضرت عبید اللہ نے آخر حدیث میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان یہودیوں کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے جلا وطن کردیاتھا۔ اس روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، المساقاة و المزارعة، حدیث:3967(1551)) زمین کو ٹھیکے پر دینے کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الحرث والزراعۃ میں بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2286
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2286
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2286
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان بالا میں کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ان کی عادت ہے کہ جہاں قوی اختلاف ہو وہاں اس کا حکم ذکر نہیں کرتے،البتہ پیش کردہ آثار سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کے فوت ہونے سے اجارہ ختم نہیں ہوگا،ہاں اگر کوئی معاملہ فریقین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ مشروط ہوتو اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔مذکورہ آثار کو محدث ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔( المصنف لابن ابی شیبۃ:7/277،276) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی متصل روایت کو خود ہی موصولاً ذکر کیا ہے۔ وہ متصل روایت حسب ذیل ہے۔
اور ابن سیرین نے کہا کہ زمین والے بغیر مدت پوری ہوئے ٹھیکہ دار کو ( یا اس کے وارثوں کو ) بے دخل نہیں کر سکتے۔ اور حکم، حسن اور ایاس بن معاویہ نے کہا اجارہ مدت ختم ہونے تک باقی رہے گا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہاآنحضرت ﷺنے خیبر کا اجارہ آدھوں آدھ بٹائی پر یہودیوں کو دیا تھا۔ پھر یہی ٹھیکہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانہ تک رہا۔ اور حضرت عمر ؓکے بھی شروع خلافت میں۔ اور کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نیا ٹھیکہ کیا ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے زرعی اراضی کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبید اللہ نے اس روایت کو حضرت نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے۔ تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مؤجر اور مستأجر دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے اجارے کی فسخ ہوجانے یا عدم فسخ کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کا مرجانا،فسخ اجارہ کے لیے دلیل نہیں ہے، تاہم علمائے کوفہ کے نزدیک ایسا اجارہ فسخ ہوجاتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے کہ ایسے حالات میں اجارہ فسخ نہیں ہوگا، جمہور کا یہی موقف ہے جسے انھوں نے اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:583/4) (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت کئی ایک روایات ذکر کی ہیں: پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زرعی اراضی پر یہود کو مقرر کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک مقررہ کرائے پر زرعی اراضی ٹھیکے پر دی جاتی تھیں۔ تیسری روایت حضرت رافع بن خدیج کی ہے کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا منع ہے۔ چوتھی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کیا تھا۔ خیبر کی زمین کو بٹائی پر دینے کے متعلق حضرت نافع سے دوراوی بیان کرتے ہیں: ایک حضرت جویریہ بن اسماء اور دوسرےحضرت عبیداللہ۔ حضرت عبید اللہ نے آخر حدیث میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان یہودیوں کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے جلا وطن کردیاتھا۔ اس روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، المساقاة و المزارعة، حدیث:3967(1551)) زمین کو ٹھیکے پر دینے کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الحرث والزراعۃ میں بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
ابن سیرین کہتے ہیں کہ متوفی کے ورثاء کے لیے جائز نہیں کہ وہ مدت پوری ہونے سے پہلے ٹھیکے دار کو بے دخل کریں۔ حضرت حکم، امام حسن بصری اور ایاس بن معاویہ نے کہا ہے کہ مدت ختم ہونے تک اجارہ باقی رکھا جائے گا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے خیبر کی زمین بٹائی پردی۔ پھر یہی اجارہ نبی ﷺ کے عہد، حضرت ابوبکر ؓ کے زمانےتک بلکہ حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی ایام تک جاری رہا۔ اور یہ ذکر کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابو بکرؓ (اور حضرت عمر ؓ)نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس اجارے کی تجدید کی ہو۔
حدیث ترجمہ:
اور رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبید اللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ (خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا) یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے انہیں جلاوطن کردیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا منشائے باب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے زمین کی بٹائی کا ٹھیکہ طے فرمایا، جو حیات نبوی تک جاری رہا۔ بعد میں آپ ﷺ کا انتقال ہو گیا تب اسی معاملہ کو حضرت صدیق اکبر ؓ نے خلیفہ اسلام ہونے کی حیثیت میں جاری رکھا حتی کہ ان کا بھی وصال ہو گیا تو حضرت عمر ؓ نے بھی اپنی شروع خلافت میں اس معاملہ کو جاری رکھا۔ بعد میں یہودیوں کی مسلسل شرارتیں دیکھ کر ان کو خیبر سے جلاوطن کر دیا۔ پس ثابت ہوا کہ دو معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی موت ہوجانے سے وہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ان کے وارث اسے جاری رکھیں گے ہاں اگر کسی معاملہ کو فریقین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر یہ امر دیگر ہے۔ روایت میں زمینوں کو کرایہ پر دینے کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ فالتو زمین پڑی ہو جیسا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں حالات تھے، تو ایسے حالات میں مالکان زمین یا تو فالتو زمینوں کی خود کاشت کریں یا پھر بجائے کرایہ پر دینے کے اپنے کسی حاجت مند بھائی کو مفت دے دیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Rafi' bin Khadij said, "The Prophet (ﷺ) forbade renting farms." Narrated 'Ubaid-Ullah Nafi (RA) ' said: Ibn 'Umar (RA) said: (The contract of Khaibar continued) till 'Umar evacuated the Jews (from Khaibar).