باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: The Statement of Allah jala jalaaluhu:"... To those also with whom you have made a pledge, give them their due portion by Wasiya...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2293.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائےتو رسول اللہ ﷺ نے ان میں اور حضرت سعد بن ربیع ؓ میں بھائی چارہ کرادیا۔
تشریح:
(1) قبل ازیں قسم اٹھا کر عہدوپیمان کرنے کا بیان تھا،اس روایت سے پتہ چلا کہ اس سے مراد مؤاخات ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی قرار دینے کی اسکیم ہجرت کے فوراً بعد شروع کردی تاکہ انصار آنے والے مہاجرین کو نئے ماحول میں رہنے سہنے کی کچھ سہولتیں مہیا کریں اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں۔ اس روایت میں اسی قسم کی مؤاخات کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2220
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2293
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2293
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2293
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائےتو رسول اللہ ﷺ نے ان میں اور حضرت سعد بن ربیع ؓ میں بھائی چارہ کرادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں قسم اٹھا کر عہدوپیمان کرنے کا بیان تھا،اس روایت سے پتہ چلا کہ اس سے مراد مؤاخات ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی قرار دینے کی اسکیم ہجرت کے فوراً بعد شروع کردی تاکہ انصار آنے والے مہاجرین کو نئے ماحول میں رہنے سہنے کی کچھ سہولتیں مہیا کریں اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں۔ اس روایت میں اسی قسم کی مؤاخات کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس ؓ نے کہ جب عبدالرحمن بن عوف ؓ یہاں آئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع ؓ سے کرایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Abdur-Rahman bin 'Auf came to us and Allah's Apostle (ﷺ) established a bond of brotherhood between him and Sad bin Rabi'a.