باب : کوئی عورت اپنا نکاح کرنے کے لیے بادشاہ کو وکیل کردے
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: A woman can depute the ruler in marriage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2310.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں خود کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ ایک شخص بولا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس قرآن کے بدلے جو تجھے یادہے اس کا نکاح تجھ سے کردیا۔‘‘
تشریح:
(1) اس عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میں نے خود کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے تو گویا اس نے آپ کو اس بات کا وکیل بنایا کہ آپ اس کا نکاح اپنے ساتھ کرلیں یا جس کے ساتھ آپ مناسب خیال کریں اس کے ساتھ کردیں۔ عنوان بھی یہی ہے۔ ہبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مہر وغیرہ کا میری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیتی ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے قانون کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ کچھ دیر سوچتے رہے۔ یہ تردد دیکھ کر ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس کا نکاح مجھ سے کردیں۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5135،5126) (2) واضح رہے کہ عورت کا کسی کو اپنا نفس ہبہ کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے، کسی امتی کے لیے اس طرح عورت کا ہبہ جائز نہیں، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی طے ہوسکتی ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2235
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2310
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2310
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2310
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں خود کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ ایک شخص بولا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس قرآن کے بدلے جو تجھے یادہے اس کا نکاح تجھ سے کردیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میں نے خود کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے تو گویا اس نے آپ کو اس بات کا وکیل بنایا کہ آپ اس کا نکاح اپنے ساتھ کرلیں یا جس کے ساتھ آپ مناسب خیال کریں اس کے ساتھ کردیں۔ عنوان بھی یہی ہے۔ ہبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مہر وغیرہ کا میری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیتی ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے قانون کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ کچھ دیر سوچتے رہے۔ یہ تردد دیکھ کر ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس کا نکاح مجھ سے کردیں۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5135،5126) (2) واضح رہے کہ عورت کا کسی کو اپنا نفس ہبہ کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے، کسی امتی کے لیے اس طرح عورت کا ہبہ جائز نہیں، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی طے ہوسکتی ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، انہیں سہل بن سعد ؓ نے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے خود کو آپ کو بخش دیا۔ اس پر ایک صحابی نے کہا کہ آپ میرا ان سے نکاح کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس مہر کے ساتھ کیا جو تمہیں قرآن یاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ وکالت امام بخاری ؒ نے عورت کے اس قول سے نکالی کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی۔ داؤدی نے کہا حدیث میں وکالت کا ذکر نہیں ہے۔ اور آنحضرت ﷺ ہر مومن اور مومنہ کے ولی ہیں بموجب آیت النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ الخ اور اسی ولایت کی وجہ سے آپ نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی داخل ہوسکتی ہے۔ اگرکچھ اس کے پاس مہر میں پیش کرنے کے لیے نہ ہو۔ حضرت موسیٰ ؑ نے دختر حضرت شعیب ؑ کے مہر میں اپنی جان کو دس سال کے لیے بطور خادم پیش فرمایا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): A woman came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I want to give up myself to you." A man said, "Marry her to me." The Prophet (ﷺ) said, "We agree to marry her to you with what you know of the Qur'an by heart."