باب: اگر وکیل کوئی ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع واپس کی جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: If a deputy sells something (in an illegal manner))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2312.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بلال ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں برنی کھجور لے کر آئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہاں سے لائے ہو؟‘‘ حضرت بلال ؓ نے عرض کیا: میرے پاس ہلکی قسم کی کھجوریں تھیں تو میں نے ان میں سے دوصاع ایک صاع کے عوض فروخت کیے ہیں تاکہ نبی ﷺ کو یہ (برنی)کھجوریں کھلائیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اوہ اوہ!یہ تو خالص سود ہے۔ یہ تو سراسرسود ہے۔ ایسا مت کرو۔ اگر تم اس طرح خرید نا ہی چاہو تو اپنی کھجور فروخت کرو، پھر اس کی قیمت سے یہ اچھی کھجور خریدلو۔ ‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں اگرچہ واپس کرنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے:’’انھیں واپس کرو کیونکہ یہ سودی معاملہ ہے ۔‘‘(صحیح مسلم، المساقاةوالمزارعة، حدیث:4084(1594)) دراصل اس قسم کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا: ایک واقعہ تحریم ربا سے پہلے کا ہے، وہاں آپ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم نہیں دیا اور دوسرا تحریم ربا کے بعد کا ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم دیا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر وکیل نے کوئی بیع فاسد کر ڈالی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوگی بلکہ اسے مسترد کرتے ہوئے سودا واپس کرنا ہوگا۔ (فتح الباري:417/4) (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سود حرام ہے اور اسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں اگرچہ وہ کسی وجہ سے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہی کیوں نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2237
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2312
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2312
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2312
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
تمہید باب
باب کی حدیث میں اس کی صراحت نہیں کہ وہ واپس ہوگی۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا۔ اس کو امام مسلم نے نکالا۔ جس میں یوں ہے۔ یہ سود ہے اس کو پھیر دے۔(وحیدی)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بلال ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں برنی کھجور لے کر آئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہاں سے لائے ہو؟‘‘ حضرت بلال ؓ نے عرض کیا: میرے پاس ہلکی قسم کی کھجوریں تھیں تو میں نے ان میں سے دوصاع ایک صاع کے عوض فروخت کیے ہیں تاکہ نبی ﷺ کو یہ (برنی)کھجوریں کھلائیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اوہ اوہ!یہ تو خالص سود ہے۔ یہ تو سراسرسود ہے۔ ایسا مت کرو۔ اگر تم اس طرح خرید نا ہی چاہو تو اپنی کھجور فروخت کرو، پھر اس کی قیمت سے یہ اچھی کھجور خریدلو۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اگرچہ واپس کرنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے:’’انھیں واپس کرو کیونکہ یہ سودی معاملہ ہے ۔‘‘(صحیح مسلم، المساقاةوالمزارعة، حدیث:4084(1594)) دراصل اس قسم کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا: ایک واقعہ تحریم ربا سے پہلے کا ہے، وہاں آپ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم نہیں دیا اور دوسرا تحریم ربا کے بعد کا ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم دیا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر وکیل نے کوئی بیع فاسد کر ڈالی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوگی بلکہ اسے مسترد کرتے ہوئے سودا واپس کرنا ہوگا۔ (فتح الباري:417/4) (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سود حرام ہے اور اسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں اگرچہ وہ کسی وجہ سے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہی کیوں نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں برنی کھجور (کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خرید کر۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ حضرت بلال ؓ کی یہ بیع فاسد تھی۔ آنحضرت ﷺ نے اسے واپس کر ا دیا۔ جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباء میں حضرت ابوسعید ؓ ہی کی روایت سے منقول ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں:فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم هذہ الرباء فردوہ۔ الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔ اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں:هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَقْبُوضَ بِبَيْعٍ فَاسِدٍ يَجِبُ رَدُّهُ عَلَى بَائِعِهِ وَإِذَا رَدَّهُ اسْتَرَدَّ الثَّمَنَ فَإِنْ قِيلَ فَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ السَّابِقِ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِرَدِّهِ فَالْجَوَابُ أَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهَا قَضِيَّةٌ وَاحِدَةٌ وَأَمَرَ فِيهَا بِرَدِّهِ فَبَعْضُ الرُّوَاةِ حَفِظَ ذَلِكَ وَبَعْضُهُمْ لَمْ يَحْفَظْهُ فَقَبِلْنَا زِيَادَةَ الثِّقَةِ وَلَوْ ثَبَتَ أَنَّهُمَا قَضِيَّتَانِ لَحُمِلَتِ الْأُولَى عَلَى أَنَّهُ أَيْضًا أَمَرَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يَبْلُغْنَا ذَلِكَ وَلَوْ ثَبَتَ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْ بِهِ مَعَ أَنَّهُمَا قَضِيَّتَانِ لَحَمَلْنَاهَا عَلَى أَنَّهُ جَهِلَ بَائِعَهُ وَلَا يُمْكِنُ مَعْرِفَتُهُ فَصَارَ مَالًا ضَائِعًا لِمَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ بِقِيمَتِهِ وَهُوَ التَّمْرُ الَّذِي قَبَضَهُ عِوَضًا فَحَصَلَ أَنَّهُ لَا إِشْكَالَ فِي الْحَدِيثِ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔ (نووي)یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔ اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے واپسی کا حکم فرمایا۔ بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔ پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔ اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔ تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔ تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔ پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Once Bilal (RA) brought Barni (i.e. a kind of dates) to the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) asked him, "From where have you brought these?" Bilal (RA) replied, "I had some inferior type of dates and exchanged two Sas of it for one Sa of Barni dates in order to give it to the Prophet; to eat." Thereupon the Prophet (ﷺ) said, "Beware! Beware! This is definitely Riba (usury)! This is definitely Riba (Usury)! Don't do so, but if you want to buy (a superior kind of dates) sell the inferior dates for money and then buy the superior kind of dates with that money."