Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute a person to carry out a punishment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2314.
حضرت زید بن خالد اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اے انیس ! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایسے خالص حقوق اللہ میں وکالت کو ثابت کیا ہے جو عبادت کے علاوہ ہیں۔ واضح رہے کہ عبادات محضہ، مثلاً: نماز، روزہ اور طہارت وغیرہ میں وکالت جائز نہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انیس کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا کیونکہ وہ اس عورت کے قبیلے سے تھے، اگر کسی دوسرے قبیلے کہ شخص کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ اس حکم سے نفرت کرتے۔ حضرت انیس اور ملزمہ عورت کا تعلق قبیلۂ اسلم سے تھا۔ (3) اس حدیث سے قانونی پہلو یہ برآمد ہوتا ہے کہ اقرار جرم سے گواہوں کی ضرورت ساقط ہوجاتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہواکہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کےلیے زنا کی حد سنگسار ہی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2239
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2314
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2314
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2314
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت زید بن خالد اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اے انیس ! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایسے خالص حقوق اللہ میں وکالت کو ثابت کیا ہے جو عبادت کے علاوہ ہیں۔ واضح رہے کہ عبادات محضہ، مثلاً: نماز، روزہ اور طہارت وغیرہ میں وکالت جائز نہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انیس کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا کیونکہ وہ اس عورت کے قبیلے سے تھے، اگر کسی دوسرے قبیلے کہ شخص کو حد قائم کرنے کے لیے بھیجا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ اس حکم سے نفرت کرتے۔ حضرت انیس اور ملزمہ عورت کا تعلق قبیلۂ اسلم سے تھا۔ (3) اس حدیث سے قانونی پہلو یہ برآمد ہوتا ہے کہ اقرار جرم سے گواہوں کی ضرورت ساقط ہوجاتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہواکہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کےلیے زنا کی حد سنگسار ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ نے، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ابن ضحاک اسلمی ؓ سے فرمایا، اے انیس ! اس خاتون کے یہاں جا۔ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے سنگسار کردے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انیس کو حد لگانے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اس سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ مجرم خود اگر جرم کا اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں گواہوں کی ضرور ت نہیں ہے۔ اور زنا پر حد شرعی سنگساری بھی ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid and Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "O Unais! Go to the wife of this (man) and if she confesses (that she has committed illegal sexual intercourse), then stone her to death."