باب: قربانی کے اونٹوں میں وکالت اور ان کا نگرانی کرنے میں
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute someone to sacrifice Budn (camels for sacrifice) and to look after them)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2317.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانیوں کے ہار میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے ہاتھوں سے ان کے گلے میں ڈالا۔ اس کے بعد آپ نے میرے والد گرامی (حضرت ابو بکر ؓ)کے ہمراہ انھیں مکہ مکرمہ روانہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہ ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی تھی تاآنکہ ان قربانیوں کو ذبح کردیا گیا۔
تشریح:
ہدی کے جانور وہ ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ نیت کی جاتی ہے کہ انھیں مکہ لے جا کر ذبح کیا جائے گا۔ ایسا کرنے سے جانور بھیجنے والے پر احرام کی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدی کہ جانور مکہ لے جانے کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کو وکیل بنایا اور ان کی نگہداشت کےلیے حضرت عائشہ ؓ تعینات تھیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ قربانی بھی عبادت ہے، اس قسم کی عبادت میں کسی دوسرے کو وکیل بنایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عبادت محضہ نہیں ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2241
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2317
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2317
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2317
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
تمہید باب
وکالت تو اس سے ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ و ہ قربانیاں روانہ کردیں، اور نگرانی اس سے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ان کے گلوں میں ہار ڈالے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانیوں کے ہار میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے ہاتھوں سے ان کے گلے میں ڈالا۔ اس کے بعد آپ نے میرے والد گرامی (حضرت ابو بکر ؓ)کے ہمراہ انھیں مکہ مکرمہ روانہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہ ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی تھی تاآنکہ ان قربانیوں کو ذبح کردیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ہدی کے جانور وہ ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ نیت کی جاتی ہے کہ انھیں مکہ لے جا کر ذبح کیا جائے گا۔ ایسا کرنے سے جانور بھیجنے والے پر احرام کی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدی کہ جانور مکہ لے جانے کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کو وکیل بنایا اور ان کی نگہداشت کےلیے حضرت عائشہ ؓ تعینات تھیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ قربانی بھی عبادت ہے، اس قسم کی عبادت میں کسی دوسرے کو وکیل بنایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عبادت محضہ نہیں ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا، میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی کریم ﷺ کے قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان جانوروں کو یہ قلادے اپنے ہاتھ سے پہنائے تھے۔ آپ ﷺ نے وہ جانور میرے والد کے ساتھ ( مکہ میں قربانی کے لیے) بھیجے۔ ان کی قربانی کی گئی۔ لیکن (اس بھیجنے کی وجہ سے) آپ ﷺ پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے حلال کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت رسول کریم ﷺ کے قربانی کے اونٹوں کے لیے حضرت عائشہ ؓ نے قلادہ بٹنے میں آپ کی وکالت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شادی 10نبوی میں مکہ شریف میں ہوئی۔ 2ھ میں ہجرت سے18ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ یہ9سال رہی ہیں کیوں کہ وصال نبوی کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ بہت بڑی فصیحہ فقیہ عالمہ، فاضلہ تھیں۔ حضور ؓ سے بکثرت احادیث آپ نے نقل کی ہیں۔ وقائع عرب و محاورات و اشعار کی زبردست واقف کار تھیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 57ھ یا 58ھ میں شب سہ شنبہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق شب میں بقیع غرقد میں آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو ان دنوں معاویہ ؓ کے دور حکومت میں مدینہ میں مروان کے ماتحت تھے۔ بقیع غرقد مدینہ کا پرانا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ آج کل اس کی جانب مسجد نبوی سے ایک وسیع سڑک نکال دی گئی ہے۔ قبرستان کو چاروں طرف ایک اونچی فصیل سے گھیر دیا گیا ہے۔ اندر پرانی قبریں بیشتر نابود ہو چکی ہیں، اہل بدعت نے پہلے دور میں یہاں بعض صحابہ و دیگر بزرگان دین کے ناموں پر بڑے بڑے قبے بنا رکھے تھے۔ اور ان پر غلاف، پھول ڈالے جاتے۔ اور وہاں نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سعودی حکومت نے حدیث نبوی کی روشنی میں ان سب کو مسمار کردیا ہے۔ پختہ قبریں بنانا شریعت اسلامیہ میں قطعاً منع ہے اور ان پر چادر پھول محدثات و بدعات ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ایسی بدعات سے بچائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I twisted the garlands of the Hadis (i.e. animals for sacrifice) of Allah's Apostle (ﷺ) with my own hands. Then Allah's Apostle (ﷺ) put them around their necks with his own hands, and sent them with my father (to Makkah). Nothing legal was regarded illegal for Allah's Apostle (ﷺ) till the animals were slaughtered.