باب : کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: The results of indulging in agricultural equipment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2321.
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے انھوں نے ہل کا پھل اور کھیتی کے کچھ دوسرے آلات دیکھے تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’یہ زرعی آلات جس قوم کے گھر میں گھس آتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ذلت ورسوائی سے دو چار کردیتا ہے۔‘‘ محمد(امام بخاری) نے کہا: حضرت ابو امامہ کا نام صدی بن عجلان ہے۔
تشریح:
حدیث میں مذکورہ ذلت ورسوائی اس بنا پر ہوگی کہ جب انسان دن رات کھیتی باڑی میں لگا رہے گا، جہاد اور اس کے لوازمات سے غافل ہوجائے گا تو دشمن کا غالب آجانا یقینی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’جب تم بیع عینہ کرنے لگوگے، بیلوں کی دمیں پکڑ لوگے، کھیتی باڑی ہی میں مگن ہوجاؤ گے اور جہاد کو نظر انداز کردوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا، پھر اس ذلت کو تم سے اس وقت تک دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقي:316/5) الغرض ترک جہاد اور کھیتی باڑی میں مصروفیت سے دشمن غالب ہوگا اور انھیں اپنا محکوم بنالے گا جو محض ذلت ورسوائی ہے،اس لیے کھیتی باڑی اور اس طرح کی دوسری چیزوں میں حد سے دلچسپی اور مصروفیت مناسب نہیں۔ اس کے مفاسد وخطرات سے انسان کو بچنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2245
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2321
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2321
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2321
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے انھوں نے ہل کا پھل اور کھیتی کے کچھ دوسرے آلات دیکھے تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’یہ زرعی آلات جس قوم کے گھر میں گھس آتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ذلت ورسوائی سے دو چار کردیتا ہے۔‘‘ محمد(امام بخاری) نے کہا: حضرت ابو امامہ کا نام صدی بن عجلان ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں مذکورہ ذلت ورسوائی اس بنا پر ہوگی کہ جب انسان دن رات کھیتی باڑی میں لگا رہے گا، جہاد اور اس کے لوازمات سے غافل ہوجائے گا تو دشمن کا غالب آجانا یقینی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’جب تم بیع عینہ کرنے لگوگے، بیلوں کی دمیں پکڑ لوگے، کھیتی باڑی ہی میں مگن ہوجاؤ گے اور جہاد کو نظر انداز کردوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا، پھر اس ذلت کو تم سے اس وقت تک دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقي:316/5) الغرض ترک جہاد اور کھیتی باڑی میں مصروفیت سے دشمن غالب ہوگا اور انھیں اپنا محکوم بنالے گا جو محض ذلت ورسوائی ہے،اس لیے کھیتی باڑی اور اس طرح کی دوسری چیزوں میں حد سے دلچسپی اور مصروفیت مناسب نہیں۔ اس کے مفاسد وخطرات سے انسان کو بچنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سالم حمصی نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد الہانی نے بیان کیا، ان سے ابوامامہ باہلی ؓ نے بیان کیا آپ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒنے منعقدہ باب میں احادیث آمدہ در مدح زراعت و در ذم زراعت میں تطبیق پیش فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت حدیث واردہ میں نقل ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر وہ کھیتی قابل تعریف نہیں رہتی۔ هَذَا مِنْ إِخْبَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُغَيَّبَاتِ لِأَنَّ الْمُشَاهَدَ الْآنَ أَنَّ أَكْثَرَ الظُّلْمِ إِنَّمَا هُوَ عَلَى أَهْلِ الْحَرْثِ وَقَدْ أَشَارَ الْبُخَارِيُّ بِالتَّرْجَمَةِ إِلَى الْجَمْعِ بَيْنَ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ وَالْحَدِيثِ الْمَاضِي فِي فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ وَذَلِكَ بِأَحَدِ أَمْرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُحْمَلَ مَا وَرَدَ مِنَ الذَّمِّ عَلَى عَاقِبَةِ ذَلِكَ وَمَحَلُّهُ مَا إِذَا اشْتَغَلَ بِهِ فَضَيَّعَ بِسَبَبِهِ مَا أُمِرَ بِحِفْظِهِ وَإِمَّا أَنْ يُحْمَلَ عَلَى مَا إِذَا لَمْ يُضَيِّعْ إِلَّا أَنَّهُ جَاوَزَ الْحَدَّ فِيهِ وَالَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ كَلَامَ أَبِي أُمَامَةَ مَحْمُولٌ عَلَى مَنْ يَتَعَاطَى ذَلِكَ بِنَفْسِهِ أَمَّا مَنْ لَهُ عُمَّالٌ يَعْمَلُونَ لَهُ وَأَدْخَلَ دَارَهُ الْآلَةَ الْمَذْكُورَةَ لِتُحْفَظَ لَهُمْ فَلَيْسَ مُرَادًا وَيُمْكِنُ الْحَمْلُ عَلَى عُمُومِهِ فَإِنَّ الذُّلَّ شَامِلٌ لِكُلِّ مَنْ أَدْخَلَ عَلَى نَفْسِهِ مَا يَسْتَلْزِمُ مُطَالبَة آخر لَهُ وَلَا سِيمَا إِذْ كَانَ الْمُطَالِبُ مِنَ الْوُلَاةِ وَعَنِ الدَّاوُدِيِّ هَذَا لِمَنْ يَقْرُبُ مِنَ الْعَدُوِّ فَإِنَّهُ إِذَا اشْتَغَلَ بِالْحَرْثِ لَا يَشْتَغِلُ بِالْفُرُوسِيَّةِ فَيَتَأَسَّدُ عَلَيْهِ الْعَدُوُّ فَحَقُّهُمْ أَنْ يَشْتَغِلُوا بِالْفُرُوسِيَّةِ وَعَلَى غَيْرِهِمْ إِمْدَادُهُمْ بِمَا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ(فتح الباري)یعنی یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی ان خبروں میں سے ہے جن کو مشاہدہ نے بالکل صحیح ثابت کر دیا۔ کیوں کہ اکثر مظالم کا شکار کاشتکار ہی ہوتے چلے آرہے ہیں اور حضرت امام بخاری ؒ نے باب سے حدیث ابی امامہ اور حدیث سابقہ بابت فضیلت زراعت و باغبانی میں تطبیق پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ دو امور میں سے ایک ہے۔ اول تو یہ کہ جو مذمت وارد ہے اسے اس کے انجام پر محمول کیا جائے، اگر انجام میں اس میں اس قدر مشغولیت ہو گئی کہ اسلامی فرائض سے بھی غافل ہونے لگا۔ دوسرے یہ بھی کہ فرائض کو تو ضائع نہیں کیا مگر حد اعتدال سے آگے تجاوز کرکے اس میں مشغول ہو گیا تو یہ پیشہ اچھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ابوامامہ والی حدیث ایسے ہی شخص پر وارد ہوگی جو خود اپنے طور پر اس میں مشغول ہو اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ اور جس کے نوکر چاکر کام انجام دیتے ہوں اور حفاظت کے لیے آلات زراعت اس کے گھر میں رکھے جائیں تو ذم سے وہ شخص مراد نہ ہوگا۔ حدیث ذم عموم پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ کاشتکاروں کو بسااوقات ادائے مالیہ کے لیے حکام کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور دواؤد نے کہا کہ یہ ذم اس کے لیے ہے جو دشمن سے قریب ہو کہ وہ کھیتی باڑی میں مشغول رہ کر دشمن سے بے خوف ہو جائے گا اور ایک دشمن ان کے اوپر چڑھ بیٹھے گا۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ سپاہ گری میں مشغول رہیں اور حاجت کی اشیاءسے دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔ زراعت باغبانی ایک بہترین فن ہے۔ بہت سے انبیاء، اولیاء، علماءزراعت پیشہ رہے ہیں۔ زمین میں قدرت نے اجناس اور پھلوں سے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان کا نکالنا یہ زراعت پیشہ اور باغبان حضرات ہی کا کام ہے۔ اور جاندار مخلوق کے لیے جو اجناس اور چارے کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنے والا بعونہ تعالیٰ ایک زراعت پیشہ کاشتکار ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف پہلوؤں سے ان فنون کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہل جوتنے والے بیل کا ذکر ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس فن کی شرافت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زراعت پیشہ قومیں زیادہ تر مسکینی اور غربت اور ذلت کا شکار رہتی ہیں۔ پھر ان کے سروں پر مالیانے کا پہاڑ ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ بسااوقات ان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ احادیث متعلقہ مذمت میں یہی پہلو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ فن بہت قابل تعریف اور باعث رفع درجات دارین ہے۔ آج کے دور میں اس فن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ جب کہ آج غذائی مسئلہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم ترین اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ اس فن پر توجہ دے رہی ہے۔ ذلت سے مراد یہ ہے کہ حکام ان سے پیسہ سے وصول کرنے میں ان پر طرح طرح کے ظلم توڑیں گے۔ حافظ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جیسا فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ اکثر ظلم کا شکار کاشتکار لوگ ہی بنتے ہیں۔ بعض نے کہا ذلت سے یہ مراد ہے کہ جب رات دن کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو سپاہ گری اور فنون جنگ بھول جائیں گے اور دشمن ان پر غالب ہوجائے گا۔ علامہ نووی احادیث زراعت کے ذیل فرماتے ہیں: فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ فَضِيلَةُ الْغَرْسِ وَفَضِيلَةُ الزَّرْعِ وَأَنَّ أجر فاعلى ذلك مستمر مادام الْغِرَاسُ وَالزَّرْعُ وَمَا تَوَلَّدَ مِنْهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي أَطْيَبِ الْمَكَاسِبِ وَأَفْضَلِهَا فَقِيلَ التِّجَارَةُ وَقِيلَ الصَّنْعَةُ بِالْيَدِ وَقِيلَ الزِّرَاعَةُ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَقَدْ بَسَطْتُ إِيضَاحَهُ فِي آخِرِ بَابِ الْأَطْعِمَةِ مِنْ شَرْحِ الْمُهَذَّبِ وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَيْضًا أَنَّ الثَّوَابَ وَالْأَجْرَ فِي الْآخِرَةِ مُخْتَصٌّ بِالْمُسْلِمِينَ وَأَنَّ الْإِنْسَانَ يُثَابُ عَلَى مَا سُرِقَ مِنْ مَالِهِ أَوْ أَتْلَفَتْهُ دَابَّةٌ أَوْ طَائِرٌ وَنَحْوُهُمَا(نووی)یعنی ان احادیث میں درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یہ کہ کاشتکار اور باغبان کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے جب تک بھی اس کی وہ کھیتی یا درخت رہتے ہیں۔ ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہ سکتا ہے۔ علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ بہترین کسب کون سا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تجارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستکاری بہترین کسب ہے اور کہا گیا ہے کہ بہترین کسب کھیتی باڑی ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور میں نے باب الاطعمہ شرح مہذب میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے اور ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخرت کا اجر و ثواب مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے اور یہ بھی ہے کہ کاشتکار کی کھیتی میں سے کچھ چوری ہو جائے یا جانور پرندے کچھ اس میں نقصان کر دیں تو ان سب کے بدلے کاشتکار کو ثواب ملتا ہے۔ یا اللہ ! مجھ کو اور میرے بچوں کو ان احادیث کا مصداق بنائیو۔ جب کہ اپنا آبائی پیشہ کاشتکاری ہی ہے۔ اور یا اللہ ! اپنی برکتوں سے ہمیشہ نوازیو اور ہر قسم کی ذلت، مصیبت، پریشانی، تنگ حالی سے بچائیو، آمین ثم آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Umama al-Bahili (RA): I saw some agricultural equipments and said: "I heard the Prophet (ﷺ) saying: "There is no house in which these equipment enters except that Allah will cause humiliation to enter it."