Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: Keeping a watchdog for the farm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2322.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے زراعت اور مویشیوں کے نگہبان کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھاتو اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط اجر کم ہوتا رہے گا۔‘‘ ابن سیرین اور ابو صالح حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ’’سوائے اس کتے کے جوبکریاں یا کھیتی یا شکار کے لیے ہو۔‘‘ ابو حازم حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں : ’’شکار یا ریوڑ کا کتا مستثنیٰ ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2246
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2322
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2322
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2322
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس باب سے امام بخاری نے کھیتی کی اباحت ثابت کی کیوں کہ جب کھیت کے لیے کتا رکھنا جائز ہوا تو کھیتی کرنا بھی درست ہو گا۔ حدیث باب سے کھیت یا شکار کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کا جواز نکلا۔ حافظ نے کہا اسی قیاس پر اور کسی ضرورت سے بھی کتے کا رکھنا جائز ہو گا۔ لیکن بلا ضرورت جائز نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے زراعت اور مویشیوں کے نگہبان کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھاتو اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط اجر کم ہوتا رہے گا۔‘‘ ابن سیرین اور ابو صالح حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ’’سوائے اس کتے کے جوبکریاں یا کھیتی یا شکار کے لیے ہو۔‘‘ ابو حازم حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں : ’’شکار یا ریوڑ کا کتا مستثنیٰ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے عمل سے ایک قیراط کی کمی کرلی۔ البتہ کھیتی یا مویشی (کی حفاظت کے لیے) کتے اس سے الگ ہیں۔ ابن سیرین اور ابوصالح نے ابوہریرہ ؓ کے واسطے سے بیان کیا بحوالہ نبی کریم ﷺ کہ بکری کے ریوڑ، کھیتی اور شکار کے کتے الگ ہیں۔ ابوحازم نے کہا ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہ شکاری اور مویشی کے کتے (الگ ہیں)۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لیے بھی کتا پالا جاسکتا ہے جس طرح سے شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔ محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔ بڑا خطرہ یہ کہ ایسے کتے موقع پاتے ہی برتنوں میں منہ ڈال کر ان کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ آنے جانے والوں کو ستاتے بھی ہیں۔ ان کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں یہ موذی جانور رکھا گیا ہو۔ ایسے مسلمان کی نیکیوں میں سے ایک قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں جو بے منفعت کتے کو پالتا ہو۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ فَضِيلَةُ الْغَرْسِ وَفَضِيلَةُ الزَّرْعِ وَأَنَّ أجر فاعلى ذلك مستمر مادام الْغِرَاسُ وَالزَّرْعُ وَمَا تَوَلَّدَ مِنْهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي أَطْيَبِ الْمَكَاسِبِ وَأَفْضَلِهَا فَقِيلَ التِّجَارَةُ وَقِيلَ الصَّنْعَةُ بِالْيَدِ وَقِيلَ الزِّرَاعَةُ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَقَدْ بَسَطْتُ إِيضَاحَهُ فِي آخِرِ بَابِ الْأَطْعِمَةِ مِنْ شَرْحِ الْمُهَذَّبِ وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَيْضًا أَنَّ الثَّوَابَ وَالْأَجْرَ فِي الْآخِرَةِ مُخْتَصٌّ بِالْمُسْلِمِينَ وَأَنَّ الْإِنْسَانَ يُثَابُ عَلَى مَا سُرِقَ مِنْ مَالِهِ أَوْ أَتْلَفَتْهُ دَابَّةٌ أَوْ طَائِرٌ وَنَحْوُهُمَا الخ۔و في الحدیث الحث علی تکثیر الأعمال الصالحة و التحذیر من العمل بما ینقصها و التنبیه علی أسباب الزیادة فیها و النقص منها لتجنتب أو ترتکب و بیان لطف اللہ تعالیٰ بخلقه في إباحة مالهم به نفع و تبلیغ نبیهم صلی اللہ علیه وسلم أمور معاشهم و معادهم و فیه ترجیح المصلحة الراجحة علی المفسدة لوقوع استثناء ما ینتفع به مما حرم اتخاذہ(فتح الباري)یعنی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، یا یہ کہ اس کتے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یا اس لیے کہ بھی کہ بعض کتے شیطان ہوتے ہیں یا اس لیے کہ باوجود نہی کے کتا رکھا گیا، اس سے نیکی کم ہوتی ہے یا اس لیے کہ وہ برتنوں میں منہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں گھر والے سے ذار غفلت ہوئی اور کتے نے فوراً پاک پانی کو ناپاک کر ڈالا۔ اب اگر عبادت کے لیے وہ استعمال کیا گیا تو اس سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔ الغرض یہ جملہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے محض شوقیہ کتا پالنے والوں کی نیکیاں روزانہ ایک ایک قیراط کم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر تہذیب مغرب کا برا ہو آج کل نئی تہذب میں کتا پالنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ امیر گھرانوں میں محض شوقیہ پلنے والے کتوں کی اس قدر خدمت کی جاتی ہے کہ ان کے نہلانے دھلانے کے لیے خاص ملازم ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ استغفر اللہ ! مسلمانوں کو ایسے فضول بے ہودہ فضول خرچی کے کاموں سے بہرحال پرہیز لازم ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جن میں سے اعمال صالحہ کی کثرت پر رغبت دلانا بھی ہے اور ایسے اعمال بد سے ڈرانا بھی جن سے نیکی برباد ہو اورگناہ لازم آئے۔ حدیث ہذا میں ہر دو امور کے لیے تنبیہ ہے کہ نیکیاں بکثرت کی جائیں اور برائیوں سے بکثرت پرہیز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کی اپنی مخلوق پر مہربانی ہے کہ جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہے وہ مباح قرار دی ہے اور اس حدیث میں تبلیغ نبوی بابت امور معاش و معاد بھی مذکو رہے۔ اوراس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض چیزیں حرام ہوتی ہیں جیسا کہ کتا پالنا، مگر ان کے نفع بخش ہونے کی صورت میں ان کو مصلحت کی بنا پر مستثنیٰ بھی کر دیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever keeps a dog, one Qirat of the reward of his good deeds is deducted daily, unless the dog is used for guarding a farm or cattle." Abu Hurairah (RA) (in another narration) said from the Prophet, "unless it is used for guarding sheep or farms, or for hunting." Narrated Abu Hazim from Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A dog for guarding cattle or for hunting."