Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: Employing oxen for ploughing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2324.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےوہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ کوئی شخص ایک بیل پر سوار ہوکر جارہا تھا تو بیل نے متوجہ ہوکر کہا کہ میں اس (سواری) کے لیے نہیں بلکہ کھیتی کے لیے پیدا کیاگیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ابو بکرو عمر ؓ بھی یقین رکھتے ہیں، نیز آپ نے فرمایا: ایک بھیڑیا بکری لے گیا تو چرواہا اس کے پیچھے بھاگا تو بھیڑیے نے کہا کہ جس دن (مدینہ میں) درندے ہی درندے ہوں گے تو اس دن بکریوں کا محافظ کون ہوگا؟ اس دن تو میرے علاوہ کوئی ان کانگران نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ اورابو بکر و عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (راوی حدیث) حضرت ابو سلمہ(حضرت ابوہریرہ ؓ سے) بیان کرتے ہیں کہ اس دن یہ دونوں حضرات مجلس میں موجود نہیں تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ گائے بیل کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اگرچہ ان میں دیگر منافع اور فوائد بھی ہیں، مثلاً: ان کا گوشت کھانا، دودھ حاصل کرنا وغیرہ، تاہم انھیں کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرنا تو نص سے ثابت ہے۔ بیل کا یہ کہنا کہ میں کھیتی کےلیے پیدا کیا گیا ہوں، اس میں حصر نہیں بلکہ اس سے دیگر منافع بھی حاصل ہوسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ایک فائدے کے ذکر کرنے سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اگرچہ اس مشینی دور میں اس کے استعمال میں کچھ کمی آئی ہے، تاہم اب بھی پیشۂ زراعت اس کے بغیر ادھورا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں کوئی بات خلاف عقل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو بھی زبان دی ہے، وہ جب چاہے ان میں قوت گویائی پیدا کرسکتا ہے، ان کا بات کرنا کوئی دشوار معاملہ نہیں، البتہ خلاف عادت ضرور ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کی خبر دی ہے، لہٰذا ہمیں اس پر ایمان اور یقین ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ) کے متعلق جو فرمایا ہے وہ ان کےایمان پر پختہ اعتماد اور قوت یقین کا اظہار ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2248
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2324
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2324
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2324
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےوہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ کوئی شخص ایک بیل پر سوار ہوکر جارہا تھا تو بیل نے متوجہ ہوکر کہا کہ میں اس (سواری) کے لیے نہیں بلکہ کھیتی کے لیے پیدا کیاگیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ابو بکرو عمر ؓ بھی یقین رکھتے ہیں، نیز آپ نے فرمایا: ایک بھیڑیا بکری لے گیا تو چرواہا اس کے پیچھے بھاگا تو بھیڑیے نے کہا کہ جس دن (مدینہ میں) درندے ہی درندے ہوں گے تو اس دن بکریوں کا محافظ کون ہوگا؟ اس دن تو میرے علاوہ کوئی ان کانگران نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ اورابو بکر و عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (راوی حدیث) حضرت ابو سلمہ(حضرت ابوہریرہ ؓ سے) بیان کرتے ہیں کہ اس دن یہ دونوں حضرات مجلس میں موجود نہیں تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ گائے بیل کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اگرچہ ان میں دیگر منافع اور فوائد بھی ہیں، مثلاً: ان کا گوشت کھانا، دودھ حاصل کرنا وغیرہ، تاہم انھیں کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرنا تو نص سے ثابت ہے۔ بیل کا یہ کہنا کہ میں کھیتی کےلیے پیدا کیا گیا ہوں، اس میں حصر نہیں بلکہ اس سے دیگر منافع بھی حاصل ہوسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ایک فائدے کے ذکر کرنے سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اگرچہ اس مشینی دور میں اس کے استعمال میں کچھ کمی آئی ہے، تاہم اب بھی پیشۂ زراعت اس کے بغیر ادھورا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں کوئی بات خلاف عقل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو بھی زبان دی ہے، وہ جب چاہے ان میں قوت گویائی پیدا کرسکتا ہے، ان کا بات کرنا کوئی دشوار معاملہ نہیں، البتہ خلاف عادت ضرور ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کی خبر دی ہے، لہٰذا ہمیں اس پر ایمان اور یقین ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ) کے متعلق جو فرمایا ہے وہ ان کےایمان پر پختہ اعتماد اور قوت یقین کا اظہار ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( بنی اسرائیل میں سے ) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر ؓ بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا ! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن (مدینہ اجاڑ ہوگا) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر ؓ بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر و عمر ؓ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے باب کے تحت اس حدیث کو درج فرمایا۔ جس میں ایک اسرائیلی مرد کا اور ایک بیل کا مکالمہ مذکور ہوا ہے۔ وہ اسرائیلی بیل کو سواری کے کام میں استعمال کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیل کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت دی اور وہ کہنے لگا کہ میں کھیتی کے لیے پیدا ہوا ہوں، سواری کے لیے نہیں ہوا۔ چونکہ یہ بولنے کا واقعہ خرق عادت سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ وہ بیل جیسے جانور کو انسانی زبان میں گفتگو کی طاقت بخش دے۔ اس لیے اللہ کے محبوب رسول ﷺ نے اس پر اظہار ایمان فرمایا۔ بلکہ ساتھ ہی حضرات شیخین کو بھی شامل فرما لیا کہ آپ کو ان پر اعتماد کامل تھا حالانکہ وہ ہر دو وہاں اس وقت موجود بھی نہ تھے۔ و إنما قال ذلك رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ثقة بهما لعلمه بصدق إیمانهما و قوة یقینهما و کمال معرفتهما بقدرة اللہ تعالیٰ (عینی) یعنی آنحضرت ﷺ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہر دوپر اعتماد تھا۔ آپ ﷺ ان کے ایمان اور یقین کی صداقت اور قوت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کو بھی قدرت الٰہی کی معرفت بدرجہ کمال حاصل ہے اس لیے آپ نے اس ایمان میں ان کو بھی شریک فرما لیا۔رضي اللہ عنهما و أرضاهما۔ حدیث کا دوسرا حصہ بھیڑیے سے متعلق ہے جو ایک بکری کو پکڑ کر لے جارہا تھا کہ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اللہ نے بھیڑیے کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے چرواہے سے کہا کہ آج تو تم نے اس بکری کو مجھ سے چھڑا لیا۔ مگر اس دن ان بکریوں کو ہم سے کون چھڑائے گا جس دن مدینہ اجاڑ ہو جائے گا۔ اور بکریوں کا چرواہا ہمارے سوا کوئی نہ ہوگا۔ قال القرطبي کأنه یشیر إلی حدیث أبي هریرة المرفوع یترکون المدینة علی خبر ما کان لا یغشاها إلا العوافي یرید السباع و الطیر۔ قرطبی نے کہا کہ اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مرفوعاً حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ لوگ مدینہ کو خیریت کے ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ واپسی پر دیکھیں گے کہ وہ سارا شہر درندوں، چرندوں اور پرندوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ اس بھیڑیے کی آواز پر بھی آنحضرت ﷺ نے اظہا رایمان فرماتے ہوئے حضرات صاحبین کو بھی شریک فرمایا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت امام بخاری ؒ نے جو باب منعقد فرمایا تھا وہ حدیث بیل کے مکالمہ والے حصہ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جب سے عالم شعور میں آکر زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اس نے زیادہ تر بیل ہی کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ گدھے، گھوڑے، اونٹ، بھینسے بھی بعض بعض ملکوں میں ہلوں میں جوتے جاتے ہیں۔ مگر عموم کے لحاظ سے بیل ہی کو قدرت نے اس خدمت جلیلہ کا اہل بنایا ہے۔ آج اس مشینی دور میں بھی بیل کے بغیر چارہ نہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "While a man was riding a cow, it turned towards him and said, 'I have not been created for this purpose (i.e. carrying), I have been created for sloughing." The Prophet (ﷺ) added, "I, Abu Bakr (RA) and 'Umar believe in the story." The Prophet (ﷺ) went on, "A wolf caught a sheep, and when the shepherd chased it, the wolf said, 'Who will be its guard on the day of wild beasts, when there will be no shepherd for it except me?' "After narrating it, the Prophet (ﷺ) said, "I, Abu Bakr (RA) and 'Umar too believe it." Abu Salama (a sub-narrator) said, " Abu Bakr (RA) and 'Umar were not present then." (It has been written that a wolf also spoke to one of the companions of the Prophet (ﷺ) near Madinah as narrated in Fatah-al-Bari (RA): Narrated Unais bin 'Amr (RA): Ahban bin Aus said, "I was amongst my sheep. Suddenly a wolf caught a sheep and I shouted at it. The wolf sat on its tail and addressed me, saying, 'Who will look after it (i.e. the sheep) when you will be busy and not able to look after it? Do you forbid me the provision which Allah has provided me?' " Ahban added, "I clapped my hands and said, 'By Allah, I have never seen anything more curious and wonderful than this!' On that the wolf said, 'There is something (more curious) and wonderful than this; that is, Allah's Apostle (ﷺ) in those palm trees, inviting people to Allah (i.e. Islam).' "Unais bin 'Amr further said, "Then Ahban went to Allah's Apostle (ﷺ) and informed him what happened and embraced Islam.)" palm trees or other trees and share the fruits with me."