باب: باغ والا کسی سے کہے کہ تو سب درختوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر، تو اور میں پھل میں شریک رہیں گے
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: To say to another, "Look after my date-palm trees...)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2325.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ انصاری نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: آپ نخلستان کو ہمارے اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا: آپ لوگ ہمارے نخلستان کی دیکھ بھال اپنے ذمے لیں تو ہم آپ کو پیداوار میں شریک کرلیں گے۔ مہاجرین نے کہا: ہم نے سنا اور قبول کیا۔ (ہمیں یہ قبول ہے۔)
تشریح:
(1) اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انصار نے ازراہ ہمدردی، اخوت کی بنا پر اپنی زمینوں اور باغات کو مہاجرین میں تقسیم کردینے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہ ﷺ کو یقین تھا کہ آئندہ فتوحات ہوں گی، مسلمان ترقی کریں گے، انھیں غنیمت کے طور پر زمین اور باغات ملیں گے، اس لیے آپ نے مدینہ طیبہ کی زمین اور باغات انصار کے پاس رہنے کو مناسب خیال کیا، البتہ دوسری تجویز سے اتفاق کیا کہ کھیت اور باغات انصار کے پاس رہیں، اس میں محنت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مہاجرین اٹھائیں، اس شرکت کار سے مہاجرین پیداوار میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ اس تجویز سے اتفاق کیا گیا۔ (2) مزارعت کے ابواب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کاشت کاری کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ زمین یا باغ کا مالک کسی دوسرے کو اس شرط پر شریک کرے کہ وہ کھیت میں محنت اور باغ کی نگرانی کرے گا، اس طرح پیداوار اور پھل کو اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کرلیا جائے گا۔ محنت کرنے والے کا کتنا حصہ ہو، اس کا تعلق حالات وظروف پر ہے۔ اگر پانی وغیرہ آسانی سے دستیاب ہے تو حصہ کم ہوسکتا ہے اور اگر اس کے برعکس پانی کی فراہمی مشکل ہے اور اسے محنت زیادہ کرنی پڑتی ہوتو حصہ زیادہ ہوسکتا ہے ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حصے کا تعین حالات وظروف کے اعتبار سے کیا جائے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2249
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2325
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2325
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2325
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
چوں کہ مسائل زراعت کا ذکر ہو رہا ہے اس لیے ایک صورت کاشتکاری کی یہ بھی ہے جو باب میں بتلائی گئی کہ کھیت یا باغ والا کسی کو شریک کرے اس شرط پر کہ اس کے کھیت یا باغ میں کل محنت وہ صرف کرے گا اور پیداوار نصفا نصف تقسیم ہو جائے گی۔ یہ صورت شرعاً جائز ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو انصار نے از راہ ہمدردی و اخوت اپنی زمینوں، باغوں کو مہاجرین میں تقسیم کرنا چاہا مگر آنحضرت ﷺ نے اس صورت کو پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ شرکت کار کی تجویز پر اتفاق ہو گیا کہ مہاجرین ہمارے کھیتوں یا کھجور کے باغوں میں کام کریں اور پیداوار تقسیم ہو جایا کرے۔ اس پر سب نے آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار کیا۔ اور سمعنا واطعنا سے اظہار رضامندی فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ابتدائے اسلام ہی سے عام طور پر مسلمانوں کا یہ رجحان طبع رہا ہے کہ وہ خود اپنے بل بوتے پر زندگی گزاریں اور اللہ کے سوا اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں۔ اور رزق حلال کی تلاش کے لیے ان کو جو بھی دشوار سے دشوار راستہ اختیار کرنا پڑے، وہ اسی کو اختیار کرلیں۔ مسلمانوں کا یہی جذبہ تھا جو بعد کے زمانوں میں بشکل تجارت اشاعت اسلام کے لیے ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔ اور اہل اسلام نے تجارت کے لیے دنیا کے کونے کونے کو چھان مارا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جہاں گئے اسلام کی زندہ جیتی جاگتی تصویر بن کرگئے۔ اور دنیا کے لیے پیغام رحمت ثابت ہوئے۔ صد افسوس کہ آج یہ باتیں خواب و خیال بن کر رہ گئی ہیں۔ الا ما شاءاللہ، رحم اللہ علینا۔ آمین ان حقائق پر ان مغرب زدہ نوجوانوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام کو محض ایک خانگی معاملہ کہہ کر سیاست معیشت سے الگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جو بالکل غلط ہے۔ اسلام نے نوع انسانی کی ہر ہر شعبہ میں زندگی میں پوری پوری رہنمائی کی ہے۔ اسلام فطری قوانین کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ انصاری نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: آپ نخلستان کو ہمارے اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا: آپ لوگ ہمارے نخلستان کی دیکھ بھال اپنے ذمے لیں تو ہم آپ کو پیداوار میں شریک کرلیں گے۔ مہاجرین نے کہا: ہم نے سنا اور قبول کیا۔ (ہمیں یہ قبول ہے۔)
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انصار نے ازراہ ہمدردی، اخوت کی بنا پر اپنی زمینوں اور باغات کو مہاجرین میں تقسیم کردینے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہ ﷺ کو یقین تھا کہ آئندہ فتوحات ہوں گی، مسلمان ترقی کریں گے، انھیں غنیمت کے طور پر زمین اور باغات ملیں گے، اس لیے آپ نے مدینہ طیبہ کی زمین اور باغات انصار کے پاس رہنے کو مناسب خیال کیا، البتہ دوسری تجویز سے اتفاق کیا کہ کھیت اور باغات انصار کے پاس رہیں، اس میں محنت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مہاجرین اٹھائیں، اس شرکت کار سے مہاجرین پیداوار میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ اس تجویز سے اتفاق کیا گیا۔ (2) مزارعت کے ابواب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کاشت کاری کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ زمین یا باغ کا مالک کسی دوسرے کو اس شرط پر شریک کرے کہ وہ کھیت میں محنت اور باغ کی نگرانی کرے گا، اس طرح پیداوار اور پھل کو اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کرلیا جائے گا۔ محنت کرنے والے کا کتنا حصہ ہو، اس کا تعلق حالات وظروف پر ہے۔ اگر پانی وغیرہ آسانی سے دستیاب ہے تو حصہ کم ہوسکتا ہے اور اگر اس کے برعکس پانی کی فراہمی مشکل ہے اور اسے محنت زیادہ کرنی پڑتی ہوتو حصہ زیادہ ہوسکتا ہے ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حصے کا تعین حالات وظروف کے اعتبار سے کیا جائے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ انصار نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہمارے باغات آپ ہم میں اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں میں تقسیم فرما دیں۔ آپ نے انکار کیا تو انصار نے (مہاجرین سے) کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم تم میوے میں شریک رہیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ہم نے سنا اور قبول کیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ یہ صورت جائز ہے کہ باغ یا زمین ایک شخص کی ہو اور کام اور محنت دوسرا شخص کرے، دونوں پیداوار میں شریک ہوں، اس کو مساقات کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جو انصار کو زمین تقسیم کردینے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ مسلمانوں کی ترقی بہت ہوگی۔ بہت سی زمینیں ملیں گی تو انصار کی زمین انہی کے پاس رہنا آپ ﷺ نے مناسب سمجھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Ansar said to the Prophet (ﷺ) "Distribute the date palm trees between us and our emigrant brothers." He replied, "No." The Ansar said (to the emigrants), "Look after the trees (water and watch them) and share the fruits with us." The emigrants said, "We listen and obey."