Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: The cutting of trees and date-palm trees)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت انس ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔ یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو باب المساجد میں اوپر موصولاً گزر چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے یا دشمن کا نقصان کرنے کے لیے جب اس کی حاجت ہو تو میوہ دار درخت کاٹنا یا کھیتی یا باغ جلا دینا درست ہے۔
2326.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔
تشریح:
(1) بنو لؤی سے مراد قریش کے اکابر ہیں۔ بنو نضیر نے عین موقع پر غداری کی تھی، اس لیے جنگی مصلحت کے پیش نظر ان کے پھل دار درختوں کو کاٹا گیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔ اگرچہ بنو لؤی اور بنو نضیر میں معاہدہ تھا کہ مصیبت کے وقت وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے لیکن اس مصیبت میں بنو لؤی ان کی کچھ مدد نہ کر سکے بلکہ غداری کی وجہ سے سزا کے طور پر خود بنو لؤی نے ان کے باغات جلائے اور کھجوروں کے درخت کاٹے۔ یہ کام ان کے لیے بالکل آسان تھا کیونکہ وہاں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں تھا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب دشمن کے درخت کاٹنے میں مصلحت ہو تو ایسے حالات میں کھجوروں اور دوسرے پھل دار درختوں کو کاٹنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2250
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2326
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2326
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2326
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
بعض حضرات کا خیال ہے کہ پھل دار درخت کاٹنا منع ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کہ ضرورت یا جنگی مصلحت کے پیش نظر پھل دار درخت کاٹے جاسکتے ہیں، چنانچہ غزوۂ احد کے بعد یہودی قبیلے بنو نظیر پر حملہ کیا گیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی مصلحت کے پیش نظر کھجوروں کے کچھ درخت کاٹنے کا حکم دیا۔سورۂ حشر میں اس کی وضاحت ہے کہ کھجوروں کے کاٹنے کی کارروائی اللہ کے حکم سے کی گئی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ حدیث انس کو متصل سند سے بیان کیا ہے کہ جب مسجد نبوی کی تعمیر کا آغاز ہوا تو وہاں کھجوروں کے درخت کاٹ دیے گئے اور مشرکین کی پرانی قبروں کو ہموار کردیا گیا۔( صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:428)
اور حضرت انس ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔ یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو باب المساجد میں اوپر موصولاً گزر چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے یا دشمن کا نقصان کرنے کے لیے جب اس کی حاجت ہو تو میوہ دار درخت کاٹنا یا کھیتی یا باغ جلا دینا درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بنو لؤی سے مراد قریش کے اکابر ہیں۔ بنو نضیر نے عین موقع پر غداری کی تھی، اس لیے جنگی مصلحت کے پیش نظر ان کے پھل دار درختوں کو کاٹا گیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔ اگرچہ بنو لؤی اور بنو نضیر میں معاہدہ تھا کہ مصیبت کے وقت وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے لیکن اس مصیبت میں بنو لؤی ان کی کچھ مدد نہ کر سکے بلکہ غداری کی وجہ سے سزا کے طور پر خود بنو لؤی نے ان کے باغات جلائے اور کھجوروں کے درخت کاٹے۔ یہ کام ان کے لیے بالکل آسان تھا کیونکہ وہاں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں تھا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب دشمن کے درخت کاٹنے میں مصلحت ہو تو ایسے حالات میں کھجوروں اور دوسرے پھل دار درختوں کو کاٹنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حکم دیا تو کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اورحسان ؓ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جارہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔ اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔ بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔ ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔ کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت ﷺ سے عہد شکنی کرائی۔ بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔ جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔ بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔ جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔ بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) got the date palm trees of the tribe of Bani-An-Nadir burnt and the trees cut down at a place called Al-Buwaira . Hassan bin Thabit said in a poetic verse: "The chiefs of Bani Lu'ai found it easy to watch fire spreading at Al-Buwaira."