باب: اگر زمین کا مالک کاشتکار سے یوں کہے میں تجھ کو اس وقت تک رکھوں گا جب تک اللہ تجھ کو رکھے اور کوئی مدت مقرر نہ کرے تو معاملہ ان کی خوشی پر رہے گا ( جب چاہیں فسخ کردیں )
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: The lease can be continued according to the approval of both the parties)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2338.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔‘‘ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔)
تشریح:
(1) مزارعت کا معاملہ کرتے وقت جب مدت معین نہ ہو تو انصاف کا تقاضا ہے کہ فیصلہ باہمی رضا مندی سے ہو۔ اس میں کم از کم ایک سال کی مدت تو ہونی چاہیے تاکہ فصل کے درمیان کاشتکار کو بے دخل کر کے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، اسے فصل کی تیاری تک ضرور مہلت دینی چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے یہود کو اس لیے بے دخل کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت تھی کہ یہود کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے، چنانچہ جب ان کی شرارتیں اور خباثتیں انتہا کو پہنچ گئیں تو حضرت عمر ؓ نے انہیں نکال باہر کیا، لہذا حضرت عمر کا یہ اقدام کسی پیشگی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ وقتی طور پر انہیں جلا وطن کرنے کا سبب یہ بنا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باغات کی دیکھ بھال کے لیے خیبر گئے تو ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔ حضرت عمر ؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا: یہود کے علاوہ ہمارا وہاں کوئی دشمن نہیں، ہمارے وہی دشمن ہیں، لہذا ہم ان کے علاوہ اور کسی کو مہتم نہیں کرتے، اس لیے میری رائے ہے کہ اب انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث:2730) (3) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں یہ الفاظ ہیں: ’’میں تمہیں اس وقت تک رہنے دوں گا جب تک اللہ تمہیں رہنے دے گا۔‘‘ جبکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ہم تمہیں رکھیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث، عنوان کے مطابق نہیں جیسا کہ بعض بزعم خویش اہل علم نے دعویٰ کیا ہے بلکہ یہ امام صاحب کی ذہانت اور جودتِ طبع کا نتیجہ ہے۔ دراصل امام بخاری نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جو انہوں نے کتاب الشروط (حدیث: 2730) میں بیان کی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’جب تک تمہیں اللہ رہنے دے گا۔‘‘ اور اس مقام پر بیان کردہ حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جب معاملہ مزارعت میں شرط کی جائے کہ جب چاہوں گا تجھے نکال دوں گا۔‘‘ بہرحال ہر عنوان میں ہر حدیث کو ملحوظ رکھ کر ایک کی دوسرے سے تفسیر کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مدت باہمی رضا مندی سے طے ہو گی، نیز یہود کا اخراج مشیت الٰہی کے مطابق تھا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2262
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2338
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2338
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2338
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ ثابت فرمایا کہ فتح خیبر کے بعد خیبر کی زمین اسلامی ملکیت میں آگئی تھی۔ آپ نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر فریقین رضا مند ہوں تو بٹائی کا معاملہ تعیین مدت کے بغیر بھی جائز ہے۔ مگر یہ فریقین کی رضا مندی پر موقوف ہے۔ خیبر کی زمین کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ اس کا بیشتر حصہ تو جنگ کے بعد فتح ہو گیا تھا۔ جو حسب قاعدہ شرع اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی ملکیت میں آگیا تھا۔ کچھ حصہ صلح کے بعد فتح ہوا۔ پھر وہ بھی حسب قاعدہ جنگ مسلمانوں کی ملک قرار دیا گیا۔ تیماء اور اریحاء دو مقاموں کے نام ہیں جو سمندر کے کنارے بنی طے کے ملک پر واقع ہیں۔ ملک شام کی راہ یہیں سے شروع ہوتی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔‘‘ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔)
حدیث حاشیہ:
(1) مزارعت کا معاملہ کرتے وقت جب مدت معین نہ ہو تو انصاف کا تقاضا ہے کہ فیصلہ باہمی رضا مندی سے ہو۔ اس میں کم از کم ایک سال کی مدت تو ہونی چاہیے تاکہ فصل کے درمیان کاشتکار کو بے دخل کر کے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، اسے فصل کی تیاری تک ضرور مہلت دینی چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے یہود کو اس لیے بے دخل کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت تھی کہ یہود کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے، چنانچہ جب ان کی شرارتیں اور خباثتیں انتہا کو پہنچ گئیں تو حضرت عمر ؓ نے انہیں نکال باہر کیا، لہذا حضرت عمر کا یہ اقدام کسی پیشگی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ وقتی طور پر انہیں جلا وطن کرنے کا سبب یہ بنا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باغات کی دیکھ بھال کے لیے خیبر گئے تو ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔ حضرت عمر ؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا: یہود کے علاوہ ہمارا وہاں کوئی دشمن نہیں، ہمارے وہی دشمن ہیں، لہذا ہم ان کے علاوہ اور کسی کو مہتم نہیں کرتے، اس لیے میری رائے ہے کہ اب انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث:2730) (3) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں یہ الفاظ ہیں: ’’میں تمہیں اس وقت تک رہنے دوں گا جب تک اللہ تمہیں رہنے دے گا۔‘‘ جبکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ہم تمہیں رکھیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث، عنوان کے مطابق نہیں جیسا کہ بعض بزعم خویش اہل علم نے دعویٰ کیا ہے بلکہ یہ امام صاحب کی ذہانت اور جودتِ طبع کا نتیجہ ہے۔ دراصل امام بخاری نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جو انہوں نے کتاب الشروط (حدیث: 2730) میں بیان کی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’جب تک تمہیں اللہ رہنے دے گا۔‘‘ اور اس مقام پر بیان کردہ حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جب معاملہ مزارعت میں شرط کی جائے کہ جب چاہوں گا تجھے نکال دوں گا۔‘‘ بہرحال ہر عنوان میں ہر حدیث کو ملحوظ رکھ کر ایک کی دوسرے سے تفسیر کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مدت باہمی رضا مندی سے طے ہو گی، نیز یہود کا اخراج مشیت الٰہی کے مطابق تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (جب خیبر پر) فتح حاصل کی تھی (دوسری سند) اور عبدالرزاق نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر ؓ نے کہ عمر بن خطاب ؓ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو سرزمین حجاز سے نکال دیا تھا اور جب نبی کریم ﷺ نے خیبر پر فتح پائی تو آپ نے بھی یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا تھا۔ جب آپ کو وہاں فتح حاصل ہوئی تو اس کی زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی ہو گئی تھی۔ آپ کا ارادہ یہودیوں کو وہاں سے باہر کرنے کا تھا، لیکن یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہیں رہنے دیں۔ ہم (خیبر کی اراضی کا) سارا کام خود کریں گے اور اس کی پیداوار کا نصف حصہ لے لیں گے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا جب تک ہم چاہیں تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر ؓ نے انہیں تیماء اور اریحاء کی طرف جلاوطن کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Umar expelled the Jews and the Christians from Hijaz. When Allah's Apostle (ﷺ) had conquered Khaibar, he wanted to expel the Jews from it as its land became the property of Allah, His Apostle, and the Muslims. Allah's Apostle (ﷺ) intended to expel the Jews but they requested him to let them stay there on the condition that they would do the labor and get half of the fruits. Allah's Apostle (ﷺ) told them, "We will let you stay on thus condition, as long as we wish." So, they (i.e. Jews) kept on living there until 'Umar forced them to go towards Taima' and Ariha'.