Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: What is said about planting trees)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2349.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کر تی تھی کیونکہ ہماری ایک بڑھیا تھی جوہمارے لیے چقندر کی جڑیں لیتی جنھیں ہم کھیتوں میں نالیوں کے کنارے بودیا کرتے تھے۔ وہ ایک ہنڈیا میں ڈال کر ان کو پکاتی، اوپر سے جو کے کچھ دانے اس میں ڈال دیتی۔ اس میں چربی یاچکنائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم جب نماز جمعہ پڑھ کر اس کے پاس جاتے تو وہ ہمارے لیے یہ پکوان رکھ دیتی۔ اس کھانے کے باعث ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔
تشریح:
شجرکاری ہمیشہ سے انسان کا محبوب مشغلہ ہے۔ درخت لگانے اور کھیتی باڑی کرنے کا ایک ہی حکم ہے۔ کسان کھیتوں کے کناروں پر درخت لگاتے ہیں، کھیتوں کے اندر علاقہ کی فصل کاشت کی جاتی ہے، کھیتوں کو پانی دینے کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں، ان نالیوں کا اردگرد اکثر سیراب رہتا ہے، اس لیے وہاں مناسب سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں یا موسمی پودے لگا دیے جاتے ہیں۔ حدیث میں ذکر ہے کہ اس وقت نالیوں کے کناروں پر چقندر کاشت کی جاتی تھی جس کا سالن بہت پسندیدہ ہوتا ہے اور اسے بہترین ڈش کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2270
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2349
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2349
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2349
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کر تی تھی کیونکہ ہماری ایک بڑھیا تھی جوہمارے لیے چقندر کی جڑیں لیتی جنھیں ہم کھیتوں میں نالیوں کے کنارے بودیا کرتے تھے۔ وہ ایک ہنڈیا میں ڈال کر ان کو پکاتی، اوپر سے جو کے کچھ دانے اس میں ڈال دیتی۔ اس میں چربی یاچکنائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم جب نماز جمعہ پڑھ کر اس کے پاس جاتے تو وہ ہمارے لیے یہ پکوان رکھ دیتی۔ اس کھانے کے باعث ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
شجرکاری ہمیشہ سے انسان کا محبوب مشغلہ ہے۔ درخت لگانے اور کھیتی باڑی کرنے کا ایک ہی حکم ہے۔ کسان کھیتوں کے کناروں پر درخت لگاتے ہیں، کھیتوں کے اندر علاقہ کی فصل کاشت کی جاتی ہے، کھیتوں کو پانی دینے کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں، ان نالیوں کا اردگرد اکثر سیراب رہتا ہے، اس لیے وہاں مناسب سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں یا موسمی پودے لگا دیے جاتے ہیں۔ حدیث میں ذکر ہے کہ اس وقت نالیوں کے کناروں پر چقندر کاشت کی جاتی تھی جس کا سالن بہت پسندیدہ ہوتا ہے اور اسے بہترین ڈش کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ جمعہ کے دن ہمیں بہت خوشی (اس بات کی) ہوتی تھی کہ ہماری ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس چقندر کو اکھاڑ لاتیں جسے ہم اپنے باغ کی مینڈوں پر بو دیا کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی ہانڈی میں پکاتیں اوراس میں تھوڑے سے جو بھی ڈال دیتیں۔ ابوحازم نے کہا میں نہیں جانتا کہ سہل نے یوں کہا نہ اس میں چربی ہوتی نہ چکنائی۔ پھر جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ وہ اپنا پکوان ہمارے سامنے کر دیتیں۔ اس لیے ہمیں جمعہ کے دن کی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام کا اپنے باغوں کی مینڈوں پر چقندر لگانا مذکور ہے۔ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا نیز اس بوڑھی اماں کا جذبہ خدمت قابل رشک ثابت ہوا۔ جو اصحاب رسول کریم ﷺ کی ضیافت کے لیے اتنا اہتمام کرتی اور ہر جمعہ کو اصحاب رسول ﷺ کو اپنے ہاں مدعو فرماتی تھی۔ چقندر اورجو، ہر دو کا مخلوط دلیہ جو تیار ہوتا اس کی لذت اور لطافت کا کیا کہنا۔ بہرحال حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ جمعہ کے دن مسنون ہے کہ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کی نماز کے بعد کیا جائے۔ خواتین کا بوقت ضرورت اپنے کھیتوں پر جانا بھی ثابت ہوا۔ مگر پردہ شرعی ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): We used to be very happy on Friday as an old lady used to cut some roots of the Silq, which we used to plant on the banks of our small water streams, and cook them in a pot of her's, adding to them, some grains of barley. (Ya'qub, the sub-narrator said, "I think the narrator mentioned that the food did not contain fat or melted fat (taken from meat).") When we offered the Friday prayer we would go to her and she would serve us with the dish. So, we used to be happy on Fridays because of that. We used not to take our meals or the midday nap except after the Jumua prayer (i.e. Friday prayer) .