Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: What is said about planting trees)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2350.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: لوگ ابوہریرہ ؓ کے متعلق بکثرت احادیث بیان کرنے کا ا عتراض کرتے ہیں۔ آخر اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے مہاجرین اور انصار اس (ابوہریرہ ؓ) کی طرح احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟بات دراصل یہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں کاروبار کے لیے مشغول رہتے تھے اور میرے انصاری بھائی اپنے مویشیوں کی ذمہ داری میں لگے رہتے تھے جبکہ میں ایک قلاش آدمی تھا، پیٹ بھر جاتا تو ہروقت رسول اللہ ﷺ کے پاس رہتا تھا۔ جب یہ لوگ غائب ہوتے تو میں وہاں موجود رہتا اور جب وہ بھول جاتے تو میں یادرکھتا تھا ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک میں اپنی گفتگو ختم کروں پھر اسے سمیٹ کراپنے سینے سے لگالے تو وہ میری گفتگو کو کبھی نہیں بولے گا۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنی چادر بچھادی جبکہ اس چادر کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا نہ تھا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی تقریر ختم کی تو میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینے سے لگالیا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!میں آپ کا وہ کلام آج تک نہیں بھولا۔ اللہ کی قسم!اگر اللہ کی کتاب میں یہ دو آیات نہ ہوتیں تو میں تم سے کبھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا اور وہ دو آیات یہ ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ﴾ ’’بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ واضح دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔۔۔ ‘‘ آخر تک۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اس روایت کو شجرکاری کے باب میں لائے ہیں کیونکہ اس روایت میں انصار کے کام میں شجرکاری بھی داخل ہے۔ چونکہ انصار نخلستان کے علاقے میں آباد تھے، اس لیے باغات کی دیکھ بھال کا کام بھی عمل اموال میں شامل ہے۔ یہی عنوان کا مقصد ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان حدیث کے ضمن میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٠﴾) ’’بےشک جو لوگ ہماری نزل کردہ بینات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ اور اپنی اصلاح کر لی اور (چھپائی ہوئی آیات کی) وضاحت کر دی تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہوں۔‘‘ (البقرة: 160،159:2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ عمل اموال سے مراد انصار کا کھیتی باڑی اور شجرکاری میں مصروف ہونا ہے، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:36/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2271
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2350
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2350
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2350
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: لوگ ابوہریرہ ؓ کے متعلق بکثرت احادیث بیان کرنے کا ا عتراض کرتے ہیں۔ آخر اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے مہاجرین اور انصار اس (ابوہریرہ ؓ) کی طرح احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟بات دراصل یہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں کاروبار کے لیے مشغول رہتے تھے اور میرے انصاری بھائی اپنے مویشیوں کی ذمہ داری میں لگے رہتے تھے جبکہ میں ایک قلاش آدمی تھا، پیٹ بھر جاتا تو ہروقت رسول اللہ ﷺ کے پاس رہتا تھا۔ جب یہ لوگ غائب ہوتے تو میں وہاں موجود رہتا اور جب وہ بھول جاتے تو میں یادرکھتا تھا ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک میں اپنی گفتگو ختم کروں پھر اسے سمیٹ کراپنے سینے سے لگالے تو وہ میری گفتگو کو کبھی نہیں بولے گا۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنی چادر بچھادی جبکہ اس چادر کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا نہ تھا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی تقریر ختم کی تو میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینے سے لگالیا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!میں آپ کا وہ کلام آج تک نہیں بھولا۔ اللہ کی قسم!اگر اللہ کی کتاب میں یہ دو آیات نہ ہوتیں تو میں تم سے کبھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا اور وہ دو آیات یہ ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ﴾ ’’بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ واضح دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔۔۔ ‘‘ آخر تک۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ اس روایت کو شجرکاری کے باب میں لائے ہیں کیونکہ اس روایت میں انصار کے کام میں شجرکاری بھی داخل ہے۔ چونکہ انصار نخلستان کے علاقے میں آباد تھے، اس لیے باغات کی دیکھ بھال کا کام بھی عمل اموال میں شامل ہے۔ یہی عنوان کا مقصد ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان حدیث کے ضمن میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٠﴾) ’’بےشک جو لوگ ہماری نزل کردہ بینات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ اور اپنی اصلاح کر لی اور (چھپائی ہوئی آیات کی) وضاحت کر دی تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہوں۔‘‘ (البقرة: 160،159:2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ عمل اموال سے مراد انصار کا کھیتی باڑی اور شجرکاری میں مصروف ہونا ہے، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:36/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے، آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ بہت حدیث بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے بھی اللہ سے ملنا ہے (میں غلط بیانی کیسے کرسکتا ہوں) یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار آخر اس کی طرح کیوں احادیث بیان نہیں کرتے؟ بات یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے اور میرے بھائی انصار کو ان کی جائیداد (کھیت اور باغات وغیرہ) مشغول رکھا کرتی تھی۔ صرف میں ایک مسکین آدمی تھا۔ پیٹ بھر لینے کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت ہی میں برابر حاضر رہا کرتا۔ جب یہ سب حضرات غیر حاضر رہتے تو میں حاضر ہوتا۔ اس لیے جن احادیث کو یہ یاد نہیں کرسکتے تھے، میں انہیں یاد رکھتا تھا، اور ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے کپڑے کو میری اس تقریر کے ختم ہونے تک پھیلائے رکھے پھر (تقریر ختم ہونے پر) اسے اپنے سینے سے لگا لے تو وہ میری احادیث کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی کملی کو پھیلا دیا۔ جس کے سوا میرا بدن پر اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ جب آنحضرت ﷺ نے اپنی تقریر ختم فرمائی تو میں نے وہ چادر اپنے سینے سے لگالی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا، پھر آج تک میں آپ ﷺ کے اسی ارشاد کی وجہ سے (آپ ﷺ کی کوئی حدیث نہیں بھولا) اللہ گواہ ہے کہ اگر قرآن کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں تم سے کوئی حدیث کبھی بیان نہ کرتا آیت ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ﴾ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد الرحیم تک۔ (جس میں اس دین کے چھپانے والے پر، جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دنیا میں بھیجا ہے، سخت لعنت کی گئی ہے۔)
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے، اور مجتہد مطلق حضرات امام بخاری ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے، یہاں اس حدیث کے لانے کا مقصد یہ دکھلانا ہے کہ انصار مدینہ عام طور پر کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کھیتوں اور باغوں کو ذریعہ معاش بنانا کوئی امر معیوب نہیں ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے کہ جتنی مخلوق ان سے فائدہ اٹھائے گی اس کے لیے اجر و ثواب میں زیادتی کا موجب ہوگا۔ والحمد للہ علی ذلك۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The people say that Abu Hurairah (RA) narrates too many narrations. In fact Allah knows whether I say the truth or not. They also ask, "Why do the emigrants and the Ansar not narrate as he does?" In fact, my emigrant brethren were busy trading in the markets, and my Ansar brethren were busy with their properties. I was a poor man keeping the company of Allah's Apostle (ﷺ) and was satisfied with what filled my stomach. So, I used to be present while they (i.e. the emigrants and the Ansar) were absent, and I used to remember while they forgot (the Hadith). One day the Prophet (ﷺ) said, "Whoever spreads his sheet till I finish this statement of mine and then gathers it on his chest, will never forget anything of my statement." So, I spread my covering sheet which was the only garment I had, till the Prophet (ﷺ) finished his statement and then I gathered it over my chest. By Him Who had sent him (i.e. Allah's Apostle) (ﷺ) with the truth, since then I did not forget even a single word of that statement of his, until this day of mine. By Allah, but for two verses in Allah's Book, I would never have related any narration (from the Prophet). (These two verses are): "Verily! Those who conceal the clear signs and the guidance which we have sent down .....(up to) the Merciful.' (2.159-160)