باب : کھیتوں اور باغوں کے لیے پانی میں سے اپنا حصہ لینا
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala: "... And We have made from water every living thing...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا ” اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ اب بھی تم ایمان نہیں لاتے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” دیکھا تم نے اس پانی کو جس کو تم پیتے ہو، کیا تم نے بادلوں سے اسے اتارا ہے، یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں۔ ہم اگر چاہتے تو اس کو کھاری بنا دیتے۔ پھر بھی تم شکر ادا نہیں کرتے۔ “ اجاج ( قرآن مجید کی آیت میں ) کھاری پانی کے معنی میں ہے اور مزن بادل کو کہتے ہیں۔
2351.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ آپ کی بائیں جانب بزرگ حضرات بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’برخوردار!تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ ممکن نہیں کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی کو ترجیح دوں، چنانچہ آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے پانی کی تقسیم کا جواز ثابت ہوا، نیز اس کے حصے کی ملکیت بھی جائز ہے بصورت دیگر اس لڑکے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم سے پہلے دائیں طرف والوں کا حق فائق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی لڑکے کو دیا اس سے پانی کا ہبہ کرنا بھی ثابت ہوا۔ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور برخوردار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جو اتفاق سے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب بیٹھے تھے، باقی بزرگ حضرات بائیں طرف تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے باقی ماندہ مشروب تقسیم کرنا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونا تھی اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ نہ معلوم آپ کا بچا ہوا پانی کب اور کہاں نصیب ہو، اس بنا پر انہوں نے ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2272
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2351
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2351
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2351
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعے کو امام ترمذی، امام نسائی اور محدث ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے متصل اسناد سے بیان کیا ہے۔ (جامع الترمذی،حدیث:3703،وسنن النسائی،الاحباس،حدیث:3638،وصحیح ابن خزیمۃ:4/121،حدیث:2492) اس سے معلوم ہوا کہ پانی کا صدقہ کرنا جائز ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ پانی میں ملکیت جاری نہیں ہوتی، اس لیے اس کا ہبہ یا صدقہ یا اس کے متعلق وصیت کرنا جائز نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کر کے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ (فتح الباری:5/39) پانی کی کئی اقسام ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ وہ پانی جس کا کوئی مالک نہیں ہوتا بلکہ تمام لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں جیسا کہ دریا وغیرہ۔ اسے ہر شخص استعمال کر سکتا ہے۔ ٭ وہ چشمہ کہ حاکم وقت کسی کو اس کا مالک بنا دے، اس سے دوسرے لوگ بھی پی سکتے ہیں اور اپنے جانوروں کو بھی پلا سکتے ہیں لیکن نالہ کھود کر اس سے اپنی کھیتیاں سیراب نہیں کر سکتے۔ ٭ وہ پانی جو برتنوں، ٹینکوں اور مشکیزوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے، وہ پانی صرف اس کا ہے جس نے اسے محفوظ کیا ہے، اس میں اور کسی کا حق نہیں۔ اگر کسی نے ضائع کر دیا تو اسے تاوان دینا ہو گا، لیکن اگر کوئی پیاس سے مر رہا ہو یا اس کی سواری کو پانی کی ضرورت ہو تو اسے پانی سے محروم کرنا جائز نہیں۔ اس آخری قسم کا پانی صدقہ کیا جا سکتا ہے، کسی کو ہبہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ (عمدۃ القاری:9/52) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوا کہ کنویں کی خریدوفروخت جائز ہے اور اسے وقف بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا ” اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ اب بھی تم ایمان نہیں لاتے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” دیکھا تم نے اس پانی کو جس کو تم پیتے ہو، کیا تم نے بادلوں سے اسے اتارا ہے، یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں۔ ہم اگر چاہتے تو اس کو کھاری بنا دیتے۔ پھر بھی تم شکر ادا نہیں کرتے۔ “ اجاج ( قرآن مجید کی آیت میں ) کھاری پانی کے معنی میں ہے اور مزن بادل کو کہتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ آپ کی بائیں جانب بزرگ حضرات بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’برخوردار!تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ ممکن نہیں کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی کو ترجیح دوں، چنانچہ آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے پانی کی تقسیم کا جواز ثابت ہوا، نیز اس کے حصے کی ملکیت بھی جائز ہے بصورت دیگر اس لڑکے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم سے پہلے دائیں طرف والوں کا حق فائق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی لڑکے کو دیا اس سے پانی کا ہبہ کرنا بھی ثابت ہوا۔ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور برخوردار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جو اتفاق سے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب بیٹھے تھے، باقی بزرگ حضرات بائیں طرف تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے باقی ماندہ مشروب تقسیم کرنا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونا تھی اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ نہ معلوم آپ کا بچا ہوا پانی کب اور کہاں نصیب ہو، اس بنا پر انہوں نے ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عثمان ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "وہ کون ہے جو بئر رومہ کو خریدے پھر اپنا ڈول اس طرح ڈالے جس طرح دیگر مسلمان ڈالیں؟"تو اسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خرید لیا(اوروقف کردیا)۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس کو پیا۔ آپ کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا لڑکے ! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ نوعمر لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے اور اتفاق سے یہ اس وقت مجلس میں دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔ دیگر شیوخ اور بزرگ صحابہ بائیں جانب تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے جب باقی ماندہ مشروب کو تقسیم فرمانا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونی تھی۔ اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا خیال فرما کر عبداللہ بن عباس سے اجازت چاہی لیکن وہ اس لیے تیار نہ ہوئے کہ اس طور پر آنحضرت ﷺ کا بچایا ہوا پانی کہاں اور کب نصیب ہونا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس ایثار سے صاف انکار کر دیا۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ پانی کی تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے حصے کی ملک جائز ہے۔ ورنہ آپ ﷺ اس لڑکے سے اجازت کیوں طلب فرماتے۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ تقسیم میں داہنی طرف والوں کا حصہ ہے ، پھر بائیں طرف والوں کا۔ پس آنحضرت ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی اس لڑکے پر ہبہ فرما دیا۔ اس سے پانی کا ہبہ کر دینا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق اور ناحق کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔ حق بہرحال حق ہے اگر وہ کسی چھوٹے آدمی کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے۔ کہ بہ رضا رغبت اسے اس کے حق میں منتقل ہونے دیں۔ اور اپنی بڑائی کا خیال چھوڑدیں ، لیکن آج کے دور میں ایسے ایثار کرنے والے لوگ بہت کم ہیں ، ایثار اور قربانی ایمان کا تقاضا ہے اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): A tumbler (full of milk or water) was brought to the Prophet (ﷺ) who drank from it, while on his right side there was sitting a boy who was the youngest of those who were present and on his left side there were old men. The Prophet (ﷺ) asked, "O boy, will you allow me to give it (i.e. the rest of the drink) to the old men?" The boy said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will not give preference to anyone over me to drink the rest of it from which you have drunk." So, the Prophet (ﷺ) gave it to him.