Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: Disputes and controversies about wells)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2356.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کوئی قسم اٹھائی جبکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑا سا دنیوی مال حاصل کرلیتے ہیں (تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا)۔‘‘ اس کے بعد حضرت اشعث بن قیس ؓ آئے تو انھوں نےکہا: تمھیں ابو عبدالرحمان(عبداللہ بن مسعود ؓ) کیا بیان کررہے تھے؟ یہ آیت تو میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ میرے چچا زاد کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا۔ (ہمارا اس کے متعلق جھگڑا ہوگیا تو) آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’تیرے پاس گواہ ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: گواہ تو نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا؛ ’’پھر (فریق ثانی سے) قسم لی جائے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ تو قسم کھا جائے گا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کنویں کا جھگڑا پیش ہوا تو آپ نے مدعی سے گواہ طلب کیے۔ جب وہ گواہ پیش کرنے سے عاجز آ گیا تو آپ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی کیونکہ اسلام کا عدالتی قانون ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرے جبکہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کا حق ہے۔ چونکہ شہادت حق اس امت کا امتیاز ہے، اس لیے جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم اٹھانا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کنوؤں میں ملکیت جاری ہوتی ہے، عدالت اس سے متعلقہ مقدمات سننے کی مجاز ہے، پھر اسے حق کے مطابق فیصلہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اگر یہ تمام لوگوں کے لیے مشترکہ متاع ہے تو اس کے متعلق مقدمہ کیا ہو سکتا ہے، عدالت کیا سماعت کر سکتی ہے؟ (3) ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر و بیشتر اس طرح کیا جاتا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتا ہے، یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کا اعتبار کرنا چاہیے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2277
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2356
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2356
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2356
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کوئی قسم اٹھائی جبکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑا سا دنیوی مال حاصل کرلیتے ہیں (تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا)۔‘‘ اس کے بعد حضرت اشعث بن قیس ؓ آئے تو انھوں نےکہا: تمھیں ابو عبدالرحمان(عبداللہ بن مسعود ؓ) کیا بیان کررہے تھے؟ یہ آیت تو میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ میرے چچا زاد کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا۔ (ہمارا اس کے متعلق جھگڑا ہوگیا تو) آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’تیرے پاس گواہ ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: گواہ تو نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا؛ ’’پھر (فریق ثانی سے) قسم لی جائے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ تو قسم کھا جائے گا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کنویں کا جھگڑا پیش ہوا تو آپ نے مدعی سے گواہ طلب کیے۔ جب وہ گواہ پیش کرنے سے عاجز آ گیا تو آپ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی کیونکہ اسلام کا عدالتی قانون ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرے جبکہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کا حق ہے۔ چونکہ شہادت حق اس امت کا امتیاز ہے، اس لیے جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم اٹھانا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کنوؤں میں ملکیت جاری ہوتی ہے، عدالت اس سے متعلقہ مقدمات سننے کی مجاز ہے، پھر اسے حق کے مطابق فیصلہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اگر یہ تمام لوگوں کے لیے مشترکہ متاع ہے تو اس کے متعلق مقدمہ کیا ہو سکتا ہے، عدالت کیا سماعت کر سکتی ہے؟ (3) ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر و بیشتر اس طرح کیا جاتا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتا ہے، یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کا اعتبار کرنا چاہیے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے شفیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کوئی ایسی جھوٹی قسم کھائے جس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کے مال پر ناحق قبضہ کرلے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بہت زیادہ غضب ناک ہوگا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے (سورہ آل عمران کی یہ) آیت نازل فرمائی کہ ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی دولت خریدتے ہیں“ آخر آیت تک۔ پھر اشعث ؓ آئے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود ؓ) نے تم سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ یہ آیت تو میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک کنواں میرے چچا زاد بھائی کی زمین میں تھا۔ (پھر جھگڑا ہوا تو) آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تو اپنے گواہ لا۔ میں نے عرض کیا کہ گواہ تو میرے پاس نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر فریق مخالف سے قسم لے لے۔ اس پر میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو قسم کھا بیٹھے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس بارے میں یہ آیت نازل فر ما کر اس کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah (bin Mas'ud): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever takes a false oath to deprive somebody of his property will meet Allah while He will be angry with him." Allah revealed: 'Verily those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant, and their oaths.' ........(3.77) Al-Ash'ath came (to the place where 'Abdullah was narrating) and said, "What has Abu 'Abdur-Rahman (i.e. Abdullah) been telling you? This verse was revealed concerning me. I had a well in the land of a cousin of mine. The Prophet (ﷺ) asked me to bring witnesses (to confirm my claim). I said, 'I don't have witnesses.' He said, 'Let the defendant take an oath then.' I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! He will take a (false) oath immediately.' Then the Prophet (ﷺ) mentioned the above narration and Allah revealed the verse to confirm what he had said." (See Hadith No. 692)