Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The superiority of providing water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2363.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے (دل میں) کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی اذیت ہے جو مجھے تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر ا وپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کرتے ہوئے اس کو معاف کردیا۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔‘‘ حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے اس حدیث کی متابعت ذکر کی ہے۔
تشریح:
(1) صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:173) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جاندار مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خاص طور پر لوگوں سے بھلائی کرنے میں بہت فضیلت ہے کیونکہ جب پیاسے کتے کو پانی پلانا باعث مغفرت ہے تو انسانوں کی خدمت کرنے میں عظیم اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اس سے پانی پلانے کی فضیلت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل اللہ کے ہاں کس قدر قدرومنزلت کا باعث ہے۔ (فتح الباري:53/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2282
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2363
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2363
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2363
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے (دل میں) کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی اذیت ہے جو مجھے تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر ا وپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کرتے ہوئے اس کو معاف کردیا۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔‘‘ حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے اس حدیث کی متابعت ذکر کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:173) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جاندار مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خاص طور پر لوگوں سے بھلائی کرنے میں بہت فضیلت ہے کیونکہ جب پیاسے کتے کو پانی پلانا باعث مغفرت ہے تو انسانوں کی خدمت کرنے میں عظیم اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اس سے پانی پلانے کی فضیلت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل اللہ کے ہاں کس قدر قدرومنزلت کا باعث ہے۔ (فتح الباري:53/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ایک شخص جارہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا۔ پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے (اپنے دل میں) کہا، یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی۔ (چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور) اپنے چمڑے کے موزے کو (پانی سے) بھر کر اسے اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اوپر آیا، اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہمیں چوپاؤں پر بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا، ہر جاندار میں ثواب ہے۔ اس روایت کی متابعت حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ کسی بھی جاندار کو پانی پلا کر اس کی پیاس رفع کردینا ایسا عمل ہے کہ جو مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ اس شخص نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا اور اسی عمل کی وجہ سے بخشا گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ تو بظاہر عام ہے، ہر جانور کو شامل ہے بعض نے کہا مراد اس سے حلال چوپائے جانو رہیں۔ اور کتے اور سور وغیرہ میں ثواب نہیں کیوں کہ ان کے مار ڈالنے کا حکم ہے میں (مولانا وحید الزماں) کہتا ہوں حدیث کو مطلق رکھنا بہتر ہے۔ کتے اور سور کو بھی یہ کیا ضروری ہے کہ پیاسا رکھ کر مارا جائے۔ پہلے اس کو پانی پلا دیں اور پھر مار ڈالیں۔ ابوعبدالملک نے کہا یہ حدیث بنی اسرائیل کے لوگوں سے متعلق ہے۔ ان کو کتوں کے مارنے کا حکم نہ تھا۔ (وحیدی) حدیث میں لفظ في کل کبد رطبة عام ہے جس میں ہر جاندار داخل ہے اس لحاظ سے مولانا وحید الزماں ؒ کی تشریح خوب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "While a man was walking he felt thirsty and went down a well and drank water from it. On coming out of it, he saw a dog panting and eating mud because of excessive thirst. The man said, 'This (dog) is suffering from the same problem as that of mine. So he (went down the well), filled his shoe with water, caught hold of it with his teeth and climbed up and watered the dog. Allah thanked him for his (good) deed and forgave him." The people asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Is there a reward for us in serving (the) animals?" He replied, "Yes, there is a reward for serving any animate."